ہفتہ کی رات سونے سے قبل ارادہ باندھ لیا تھا کہ اتوار کی صبح اٹھ کر جہانگیر ترین کی قیادت میں تحریک انصاف سے جدا ہوئے افراد پر مشتمل ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کو زیر بحث لاﺅں گا۔ روایتی ا ور سوشل میڈیا مذکورہ جماعت کو ’کنگز پارٹی‘ پکارے چلاجارہا ہے۔یہ مگر بتانہیں رہا کہ ’کنگ‘ یعنی بادشاہ کون ہے جس کی سہولت کے لیے ’استحکام‘ کے عنوان سے ایک نیا گروہ متعارف کروایا گیا ہے۔
ہمارے ’ریاستی ادارے‘ سیاسی جماعتوں سے یقینا بہت تگڑے ہیں۔ سنجیدگی سے سوچیں تو ہمارے ہاں ’سیاسی جماعتیں‘ بلکہ اس انداز میں کبھی منظم ہی نہ ہوپائیں جیسے مثال کے طورپر برطانیہ کی کنزرویٹو یا لیبر جماعتیں ہیں۔ ہماری ’سیاسی جماعتیں‘ بنیادی طورپر کرشماتی شخصیات کے مداحین کا ہجوم ہی رہیں۔ نام نہاد’الیکٹ ایبلز‘مذکورہ ہجوم کی قوت سے متاثر ہوکر ’سیاسی جماعت‘ میں شامل ہوکر منتخب ایوانوں کے رکن بن جاتے ہیں۔ ’کرشمہ‘ بھی مگر حسن کی طرح بتدریج اپنا اثر کھودینا شروع کردیتا ہے۔’مداحین‘ کی ’نسل‘ بھی بدلتی رہتی ہے۔ خلقت شہر کو چند برس گزرجانے کے بعد کسی نئے ’کرشمہ ساز‘ کی طلب ہوجاتی ہے۔ ان دنوں بھی ہمارے ہاں ایک ’دیدہ ور‘ کا زوال شروع ہوچکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے موصوف کے ساتھ جذباتی مریدوں کی طرح جڑے کئی افراد کو ویسے بھی 9 مئی کے واقعات کے بعد ’عافیت‘ کی تلاش ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو وہ برسوں تک گلاپھاڑپھاڑ کر اقتدار میں باریاں لینے والے ’نااہل اور بدعنوان‘ ٹھہراتے رہے ہیں۔ ’دیدہ ور‘ سے مایوس ہوجانے کے بعد ان دو جماعتوں میں شامل ہوگئے تو لوگوں کو بہت ’ڈھیٹ‘ نظر آئیں گے۔ انھیں ایک نئی پناہ گاہ درکار تھی جو جہانگیر ترین نے فراہم کردی ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیے۔
گزشتہ کئی دنوں سے کھل کر اس کالم میں اعتراف کررہا ہوں کہ سیاست کا منطقی دلائل سے جائزہ لینا مجھے اب کارِ زیاں محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ’عقل کا غلام‘ ہوئے دل ودماغ سیاسی منظر نامے پر ایسے کئی واقعات دیکھ چکے ہیں جو نمودار ہوئے تو عموماً حادثوں اور کبھی کبھار معجزوںکی صورت محسوس ہوئے۔اس کے باوجود ہفتے میں پانچ دن یہ کالم لکھنے والے کو ’دیہاڑی‘ بھی تو لگانا ہے۔ اسی باعث ارادہ باندھا تھا کہ رواں ہفتے کا پہلا کالم نئی جماعت کے امکانات زیر بحث لانے کی نذر کروں گا۔
اتوار کی صبح اٹھ کر لیپ ٹاپ کھولا۔ ٹویٹر اکاﺅنٹ کا رخ کیا تو وہاں ا فغان نژاد امریکی شہری زلمے خلیل زاد نے ’کنگز پارٹی‘ مشہور ہوئی جماعت کے بارے میں ایک طویل تھریڈ لکھ رکھا تھا۔ مقصد اس کا دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ پاکستان کے عسکری ادارے سیاسی عمل کو اپنی کامل گرفت میں رکھنے کی خاطر ایسی جماعتیں تشکیل دینے کے عادی رہے ہیں۔ سیاست پر کامل کنٹرول کی مبینہ خواہش نے پاکستان میں جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دیا۔ زلمے خلیل زاد کی تمنا تھی کہ نام نہاد عالمی برادری پاکستان کو ’اصل جمہوریت‘ کی راہ پر ڈالنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔
زلمے خلیل زاد کا لکھا ٹویٹ پڑھا تو غصہ سے بھنا گیا۔ موصوف کی اپنے اصل وطن یعنی افغانستان سے محبت ان دنوں ہی آشکار ہوگئی تھی جب نائن الیون کے بعد وہ کابل میں امریکی سفیر کی حیثیت میں تعینات ہوا تھا۔ ان دنوں میں دوبار افغانستان گیاتھا۔ زلمے خلیل زاد کو عام افغانی نہایت حقارت سے زیر بحث لاتا۔ موصوف نے جس نوعیت کے ’جمہوری حربے‘ حامدکرزئی کو افغانستان کا ’منتخب صدر‘ بنوانے کے لیے استعمال کیے ان سے بھی بخوبی واقف ہوں۔حامد کرزئی کے ممکنہ طورپر طاقتور حریفوں کو پوری قوت سے ڈرادھمکا کر انتخابی میدان سے باہر رکھنا یقینی بنایا گیا۔
افغانستان میں ’پائیدار جمہوریت‘ متعارف کروانے کے بعد موصوف امریکا کے عراق پر حملے کے بعد اس ملک میں بھی اپنے اختیار کردہ وطن کے سفیر ہوئے۔ ان کی ’مہارت‘ نے تیل کی دولت سے مالا مال اور عرب دنیا کے تناظر میں جدید علوم سے بھرپور آشنائی رکھنے والی عراق کی نوجوان نسل کو نسلی اور فرقہ وارانہ گروہوں میں منقسم ہونے کو مجبور کردیا۔ زلمے خلیل زاد کی ’سفارت ومہارت‘ کے تباہ کن اثرات سے عراق آج بھی پوری طرح نجات حاصل نہیں کرپایا۔ اسی باعث موصوف کی ا ن دنوں پاکستان میں ’پائیدار جمہوریت‘ سے واضح انداز میں منافقانہ دکھتی لگن پر غور کرتا ہوں تو جی گھبراجاتا ہے۔ ’ہوئے تم دوست جس کے....‘ والا شعر یاد آجاتا ہے۔
امریکی اشرافیہ کے دل وجان سے غلام ہوئے اس افغان نژاد کو بخوبی علم ہے کہ اس کے اختیار کردہ ملک کی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ زلمے خلیل زادکی نگرانی میں ہوئے دوحہ مذاکرات کی بدولت افغانستان سے امریکی افواج بالآخر ذلت آمیز واپسی سے ہرگز خوش نہیں۔ وہاں کے سابقہ اور حاضر سروس فوجیوں کی اکثریت زلمے خلیل زاد کی ’سفارت کارانہ مہارت‘کو اپنی ذلت کا حقیقی ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ بنیادی پر کائیاں موقع پرست اور جبلی طورپر منقسم مزاج ہوتے ہوئے زلمے خلیل زاد اپنے دل میں حال ہی میں ’اچانک‘ پاکستان کے بارے میں ابھری فکر مندی کے مسلسل اظہار سے درحقیقت پاکستا ن کے عسکری اداروں کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’حساب برابر‘ کرنا چاہ رہا ہے۔’پائیدار جمہوریت‘ سے اس کی منافقانہ لگن سراسر دونمبری ہے۔ زلمے خلیل زاد کا تاہم’استحکام‘ کے نام سے تیار ہوئی پناہ گاہ کے معماروں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔مذکورہ ’پناہ گاہ‘ کی بابت موصوف کے دونمبری خیالات سنے تو میں نے ’ایئرترین‘ کو پھکڑپن سے زیر بحث لانا فی الوقت مو¿خر کردیاہے۔