مولاناابونعمان بشیر احمد
علم میراث کا شمار علم فرائض میں ہوتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں اس اہم ترین علم، یعنی علم میراث کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں ، حالانکہ رسول اللہﷺ نے علم میراث کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی کا ترجمہ ہے، ’علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاو کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہوجائے گی، علم فرائض بھی اٹھالیاجائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کرسکے۔‘ اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ علم میراث کو سیکھنا اور سمجھنا کس قدر ضروری ہے۔ موت اور میراث کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ موت اٹل ہے تو میراث کے مسائل ومعاملات بھی ناگزیر ہیں۔ یہ مسائل ومعاملات کس طرح حل کیے جائیں؟ اس سے بیشتر لوگ آگاہ نہیں ہیں حالانکہ اسلام میں میراث کے تمام مسائل کے انتہائی اطمینان بخش جوابات موجود ہیں۔عام لوگوں کی تو بات ہی کیا؟ اکثر علمائے کرام بھی میراث کے مسائل سے آشنا نہیں ہیں۔ اسی ضرورت کے پیش نظر دارالسلام نے ’اسلام کا قانون وراثت‘ کے نام سے یہ کتاب شائع کی ہے۔ کتاب کے مولف مولانا ابونعمان بشیر احمد ہیں جبکہ شیخ الحدیث ، محدث دوراں حافظ عبدالستار الحماد نے نہ صرف موضوع کے حوالے سے گرانقدر تحقیقی مواد فراہم کیا ہے بلکہ اس کتاب کے مسودے پر نظر ثانی کی ذمہ داری بھی احسن طور پر ادا کی ہے اس طرح سے اس کتاب کی علمی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ یہ کتاب سادہ اور عام فہم اسلوب میں لکھی گئی ہے تاکہ علما ، اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلبہ اور عام لوگ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔عام طور پر اسلام کے قانون وراثت کو ایک مشکل اور پیچیدہ علم سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کتاب میں جو عام فہم اور سادہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس سے یہ بات آشکاراہوتی ہے کہ میراث کا علم ہرگز مشکل نہیں۔ کتاب میں سوال وجواب کا انداز اختیار کیا گیا اس سے یہ کتاب مزید مفید طلب اور عام فہم ہوگئی ہے۔ کتاب میں جہاں اسلام کے احکام میراث پر بات کی گئی ہے وہاں حقیقت بھی واضح کی گئی کہ اسلامی احکام میراث عدل وانصاف پر مبنی ہیں جو کہ تنازعات کے امکانات ختم کردیتے ہیں اور پرامن فلاحی معاشرے کی بنادیں مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’اسلامی قانون وراثت‘ کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی کہ اسلام تنازعاتِ ملکیت کو خوش اسلوبی سے اور انتہائی بروقت طے کرنے کی تعلیم وتربیت دیتا ہے۔ کتاب میں درج ذیل موضوعات کو زیر بحث بنایا گیا ہے : علم میراث کی تعریف ، علم میراث کا موضوع اور غرض وغایت ، میت کا ترکہ ورثا میں کب تقسیم کیا جائے ؟وہ اسباب جن کی وجہ سے وارث وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے ؟ مال میراث میں مقررہ حصے اور ان کی تقسیم ، میت کے وہ رشتے دار جن کے حصے وراثت میں متعین نہیں ان رشتے داروں کے لیے اسلام میں کیا احکام ہیں؟ تقسیم ترکہ کا طریقہ کارکیا ہے؟ مخنث کا وراثت میں حصہ؟ وہ گم شدہ شخص جس کے زندہ یا فوت ہونے کا علم نہ ہوسکے اس کے لیے احکام وراثت؟ میت کے وہ کون سے رشتے دار ہیں جن کے حصے وراثت میں متعین نہیں ، کن صورتوں میں ورثا کے مقررہ حصوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے ، میت کا ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے اس کے ورثا میں سے ایک یا ایک سے زیادہ فوت ہوجائیں تو ایسی صورت میں ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟ وہ گمشدہ شخص جس کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں علم نہ ہوسکے تو اس کے لیے کیا احکام ہیں ، عاق نامے کی شرعی حیثیت ، یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ۔ کتاب میں میت کے تمام ورثا کے حصے نکالنے کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے اسی طرح ایک تفصیلی نقشہ بھی دیا گیا ہے جس سے وراثت کے تمام مسائل اور حصوں کو سمجھنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ دریں اثنا ان تمام وجوہ کی بناپر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر لاجواب اور باکمال کتاب ہے اس کتاب کا مطالعہ ہر مرد وعورت کے لیے بے حد ضروری ہے۔
اسلامی قانون وراثت (تبصرہ)
Jun 12, 2024