عید قرباں اور اس کے تقاضے

حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com

احساس وہ دولت ہے جو کسی طرح فیاضی اور سخاوت سے کم درجے کی نہیں۔ سخی کے بارے میں فرمان رسول عالیشان ہے '' فیاض اللہ کا دوست ہے'' اسی طرح احساس بھی سرمایہ حیات اور توشہ آخرت ہے۔ امام علی سے پوچھا گیا کس طرح معلوم ہو گا کہ کس شخص کی قدر و قیمت کیا ہے؟امیر المومنین نے جواب دیا '' جس شخص میں احساس ہو گا اس قدر کی بھی زیادہ ہو گی اور قیمت بھی ''… احساس دراصل ہمدردی کا وہ نایاب جذبہ ہے جس سے ہر کسی کا دامن بھرپور اور مرقع نہیں ہوتا۔ اگر ہمارا دل و دماغ احساس سے خالی ہے تو ہم کس بات کے مسلمان اور کیسے عاشقان نبی ہوئے۔ عشرہ حج اور عید قربان کے مبارک ماہ میں غریبوں ، محتاجوں، مستحقین اور کم وسائل کے حامل افراد کا احساس کریں تو انشاءاللہ رب کائنات ہماری زندگی اور زندگیوں سے منسلک خوشیوں کو دوام بخش دیگا ۔رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا میں تمھارے بارے میں سب سے ذیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ شرکِ اصغر ہے صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ یہ شرکِ اصغر کیا ھے؟ فرمایا ریاکاری اور دکھلاوہے فرمایا قیامت کے دن اللہ رب العزت ارشاد فرمائے گا تم جن لوگوں کے لئے نیک اعمال کرتے تھے انہی سے جا کر اجر و ثواب طلب کرو۔ جو قربانی محض رضا ئے الٰہی اور سنت نبویکی پیروی میں کی جائے وہ انسانی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا احساس دلاتی ھے ذاتی مفادات و مصلحتوں کو امت کے وسیع تر مفادات پر قربان کرنے کا ولولہ پیدا کرتی ہے قربانی وہ منظر آنکھوں کے سامنے لاتی ہے جب ایک باپ بڑھاپے میں اپنے نورِ نظر اور لختِ جگر کو قربان گاہ کی طرف لے کر جاتا ہے تو فرشتوں میں کہرام مچ جاتا ہے کہ دیکھو خون و نسب کے رشتے پر بندگی و اطاعت کا رشتہ غالب آ گیاہے۔ سیدنا ابراہیم جب خدا کی محبت میں وطن و گھر، مال و دولت اور جگر کے ٹکڑے کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو ربِّ کریم بھی اپنی کرم نواز یوں اور قدر دانیوں کی انتہا فرما دیتا ہے امامت و قیادت اور لیڈرشپ کے ٹائٹل یونہی تو نہیں ملا کرتے، پہلے نرم و نازک گلے کو تسلیم و رضا کی چھری کے نیچے رکھنا پڑتا ھے تب جا کر عرش معلیٰ سے قبولیت کے تغمے جاری ہوتے ہیں۔ کچھ ملحدین اور بعض دیسی لبرلز بھی جس طرح ہراسلامی شعار اور دینی طریقے پر نقد و جرح کرتے دکھائی دیتے ہیں قربانی جیسی مقدس سنت بھی ان کے طعن و تشنیع کے تیروں سے محفوظ نہیں رہی۔ کبھی فرماتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کو ذبح کرنے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے تو کبھی زہر افشانی کرتے ہیں کہ جو پیسا قربانی کے جانوروں کی خریداری پر خرچ کیا جا رہاہے اس سے غریبوں کی مدد کی جا سکتی ہے ان اعتراضات کے پیچھے خدمت خلق یا غریب پروری کا جذبہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی اور مذہب بیزاری کا لاوہ ابل رہا ھے حالانکہ وہ یہ مشورے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں، محل نما کوٹھیاں بنانے والے امیر زادوں اور شادی بیاہ پر پانی کی طرح دولت بہانے والے شاہ خرچوں کو بھی دے سکتے ہیں مگر جن کے خمیر میں شقاوت اور ضمیر میں عداوت چھپی ہو ان سے کس خیر اور عدل کی توقع کی جا سکتی ہے۔سیرت نبوی سے پتہ چلتا ھے کہ رسالت مآبنے اپنی مبارک مدنی زندگی کے دس سال میں ہر سال قربانی کی بلکہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی یعنی اپنی حیات مقدسہ کے ہر سال کے بدلے میں تریسٹھ اونٹ اپنے دست نبوت سے ذبح فرمائے اور باقی اونٹ سیدنا علی شیر خدا کو ذبح کرنے کا حکم دیا بلکہ اعلانِ عام فرمایا کہ جو شخص مالی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ سیدنا علی المرتضیٰ ہمیشہ ایک کی بجائے دو جانوروں کی قربانی کرتے تھے صحابہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے میرے آقا کریم نے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا تو ایک قربانی اپنی طرف سے اور دوسری پیارے آقاکی طرف سے کرتا ہوں اس عمل سے ثابت ہو تا ہے کہ مرحوم والدین اور فوت شدہ عزیز رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنا نہ صرف جائز بلکہ عین ثواب ہے جس طرح نماز سے عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے روزے سے بھوکے انسان کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زکوة سے مال کی تطہیر ہوتی ہے حج سے محبت الٰہی کے دریا میں جوش آتا ہے اسی طرح قربانی سے ایمان و اخلاص میں اضافہ اور ایثار و فدائیت کے جذبوں میں ترقی ہوتی ہے یہاں حکومتی سطح پر نعرہ لگایا جاتاہے کہ ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ یعنی امداد کا عادی نہیں بلکہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے مواقع دینے چاہیے جب کہ سنت ابراہیمی کے ذریعے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ھے جب کہ اصل مقصد حکم الہی کی پیروی ہے قربانی کا پیغام بھی یہی ہے کہ رب کے حکم کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے ہماری دنیاوی اور آخروی کامیابیوں کا دارو مدار بھی احکام الٰہی کو ماننے اور نبوی طریقے کو اپنانے میںہے اگرچہ عقل، معاشرہ اور نقاد اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں محسن انسانیت نے ارشاد فرمایا" تم میں سے کوئی شخص اسوقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے" قربانی نام ہی خواہشات اور رسومات کو شریعتِ محمدی کے سانچے میں ڈھالنے کا ہے۔

ای پیپر دی نیشن