حکومت کی جانب سے شوگر ملوں کو ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی زیر صدارت شوگر ایڈوائزری بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں حکومت اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان چینی کی برآمد کے لیے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر رانا تنویر حسین نے کہا کہ حکومت نے ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی مشروط اجازت دی ہے، چینی کے اسٹاک کی دستیابی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جائے گا۔ ایکس ملز چینی کی قیمت میں کسی صورت اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ کاشتکاروں کی تمام زیر التوا ادائیگیاں ترجیحی بنیادوں پر ادا کی جائیں گی۔ شوگر ایڈوائزری بورڈ چینی کی قیمتوں اور مارکیٹ کے استحکام کا پندرہ روزہ میں دوبارہ جائزہ لے گا۔ شوگر ملز مالکان نے 15 لاکھ میٹرک ٹن چینی کی برآمد کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پہلے گندم، چینی اور چاولوں کو برآمد کیا جاتا ہے اور پھر انھیں مہنگے داموں درآمد کر کے کھربوں اپنی جیبوں میں ڈال لیے جاتے ہیں۔ درآمد و بر آمد سے کمیشن الگ کھرا کیا جاتا ہے۔ گندم سکینڈل کی بازگشت آج بھی قومی اسمبلی میں سنائی دے رہی ہے، اس سکینڈل میں ملوث تمام کردار سامنے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ اسی طرح چینی کے حوالے سے کئی بار سکینڈلز سامنے آچکے ہیں اور عوام کو چینی مافیا کی طرف سے جس پریشانی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سسٹم اور گورننس میں موجود خرابیوں کی وجہ سے ہی ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جب تک ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا۔