پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں قائد اعظم پاپولر لیڈر شپ کا بے مثال ماڈل تھے- انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے عظیم مقصد مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن پاکستان کا تعین کیا اور آئینی سیاسی و جمہوری جدوجہد سے اس عظیم مقصد کو حاصل کیا- بر صغیر کے مسلمانوں کے شعور کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے لیڈر کا انتخاب کیا جو بہترین سٹیٹسمین، نامور وکیل اور مستحکم کردار کے حامل تھے-جب پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہو گیا تو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماو¿نٹ بیٹن اور کانگریس کے لیڈروں نے قائد اعظم کو اس شرط پر متحدہ ہندوستان کا پہلا با اختیار وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی کہ وہ پاکستان کی آزادی کا مطالبہ مو¿خر کر دیں- قائد اعظم نے اس پیشکش کے جواب میں کہا کہ وہ اپنی قوم کا سودا کیسے کر سکتے ہیں-
قائد اعظم نے عوامی مقبولیت کو اپنے یا خاندان کے مفاد کے لیے استعمال نہ کیا- انہوں نے اپنی زندگی بھر کی محنت سے کمائے ہوئے اثاثے بھی فلاحی اور تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر دیئے- قائد اعظم نے سیاست اور جمہوریت کا بہترین ماڈل پیش کیا- پاکستان کے دوسرے بڑے پاپولر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھے-وہ سیاسی بصیرت کے حامل ولولہ انگیز مقرر اور ملک و عوام کی خدمت کا پر خلوص جذبہ رکھنے والے لیڈر تھے-انہوں نے عوام کو سیاسی و جمہوری حقوق کا شعور دیا-اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کے انتخابی منشور پر سرگرمی کے ساتھ عمل درامد کیا-انہوں نے امریکہ کی عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کو ایٹمی سائبان فراہم کیا اور اس کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دی-انہوں نے عالم اسلام کے عسکری اور معاشی اتحاد کے لیے پاکستان میں کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی-
پاکستان کو پہلا متفقہ جمہوری آئین دیا جو آج بھی پاکستان کے اتحاد کی علامت ہے-ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی کے اندر انتخابات کروائے اور پارٹی کو منظم کیا وہ وزیراعظم کی حیثیت سے بھی اپنی پارٹی کو فعال رکھتے اور ہر ضلعی صدر سے دو ماہ کی کارکردگی کی رپورٹ طلب کرتے تھے اور اس کا جواب بھی دیتے تھے-ان کو اگر پورا موقع ملتا تو پاکستان کو سیاسی جمہوری اور معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیتے -ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی مخالفین بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگاتے-انہوں نے پاپولر لیڈر کی حیثیت سے موت کی کوٹھڑی میں لکھی جانے والی اپنی آخری کتاب میں نوجوانوں کو سیاسی وصیت کی کہ ملٹی کلاس پارٹی بنا کر عوام کے مسائل حل کرنا ان کی غلطی تھی لہذا نوجوانوں کو طبقاتی جدوجہد کے ذریعے پاکستان کی ریاست پر عوام کی بالادستی قائم کرنی چاہیے-
پاکستان کی تیسری بڑی پاپولر لیڈر بے نظیر بھٹو تھیں- وہ جب 1986ءمیں جلا وطنی ختم کر کے لاہور پہنچیں تو عوام نے ان کا فقید المثال استقبال کیا جس کا ریکارڈ آج تک کوئی اور لیڈر نہیں توڑ سکا- انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد عوام کو اس وقت قیادت فراہم کی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ذاتی مصلحتوں کا شکار ہو چکے تھے اور جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا سے خوفزدہ تھے-
بے نظیر بھٹو کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان جیسے قدامت پسند اور مردوں کی بالا دستی والے ملک میں اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں- ان کو 1988ءاور 1993ءمیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا-بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ اور پاکستان کے دفاع کے لیے ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی کا حصول ان کے یادگار کارنامے ہیں - ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دونوں پاپولر لیڈر تھے ان کے خاندان کو عبرت ناک مثال بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے حب الوطنی کے جذبے اور تقاضے کے مطابق ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش نہ کی- پاکستان کے چوتھے بڑے پاپولر لیڈر عمران خان ہیں جن کو ورلڈ کپ کی وجہ سے ہیرو کے طور پر شہرت ملی-انہوں نے وزیراعظم بننے سے پہلے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے عظیم الشان کارنامے انجام دیے-انہوں نے شب و روز محنت کر کے تحریک انصاف کو پاکستان کی بڑی مقبول جماعت بنا دیا-ان کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے بنیادی نکات میں کرپشن کا خاتمہ، چوروں اور ڈاکوو¿ں کا احتساب، پاکستان میں تبدیلی لا کر نیا پاکستان تشکیل دینا، غلامی سے نجات اور حقیقی آزادی شامل ہیں-وہ تحریک انصاف کو منظم کرنے اسے جمہوری ماڈل بنانے سے قاصر رہے -وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ اپنی جدوجہد کے بنیادی نکات پر عمل درامد نہ کر سکے البتہ انہوں نے غریب عوام کے لیے احساس پروگرام جیسی فلاحی سکیمیں ضرور جاری کیں-
پاکستان کی موجودہ سیاست اور جمہوریت پر پاپولر سیاست کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہو رہے ہیں- کروڑوں عوام کی امید عمران خان کے خلاف مقدمات اور جیل کی صعوبتوں کی وجہ سے نوجوانوں میں غصے اور اشتعال کے جذبات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں-پاکستان کی موجودہ پاپولر سیاست کی وجہ سے ریاستی ادارے انڈر اٹیک ہیں-سماج میں تقسیم بہت گہری ہو چکی ہے-پاکستان کی سلامتی، آزادی اور یکجہتی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں-کیا پاکستان کی موجودہ پاپولر سیاست آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا سکے گی اور ریاستی اداروں کو آئین کی حدود کے اندر لا سکے گی؟۔ اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا-
نیلسن منڈیلا نے دنیا کے پاپولر لیڈروں کے لیے ایک بے مثال سیاسی ماڈل پیش کیا تھا-جب وہ 24 سال کی جیل کاٹنے کے بعد جنوبی افریقہ کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے سیاہ فام برادری کے شدید دباو¿ کے باوجود سفید فام نسل کے خلاف تعصب اور نفرت کو مسترد کر دیا-وہ پاپولیرٹی کے باوجود ذاتی انا کا شکار نہ ہوئے اور اپنے عظیم ملک جنوبی افریقہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ ہو گئے-پاپولر لیڈر اور پاپولر سیاست اگر ریاست میں سیاسی و معاشی استحکام پیدا نہ کر سکے اور عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے سے قاصر رہے تو ایسی پاپولر سیاست ملک اور عوام کے لیے تو مفید ثابت نہیں ہو سکتی البتہ ایسی سیاست کے مرکزی کھلاڑی اپنے ذاتی اور گروہی مفادات ضرور حاصل کر لیتے ہیں- عمران خان اگر اپنی جماعت تحریک انصاف اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کر سکیں اور نوجوانوں کو قابل عمل مثبت اور نتیجہ خیز قومی ایجنڈا دے سکیں تو ان کی پاپولر سیاست نہ صرف ریاست بلکہ ان کی جماعت کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے-پاپولر سیاست کے اہم ترین سٹیک ہولڈر عوام ہی ہوتے ہیں لہذا لازم ہے کہ پاپولر سیاست عوام کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنائے-اپنی تو حالت بقول غالب آج کل کچھ یوں ہے کہ۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
پاپولر سیاست اگر جماعتی نظم و ضبط کی پابند نہ ہو اور جمہوری اصولوں کو نظر انداز کردے تو سماجی نظم و ضبط متاثر ہوتا ہے سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوتا ادارہ جاتی اتھارٹی کمزور ہوتی جاتی ہے اور ریاست کا آئینی و قانونی فریم ورک ختم ہوتا جاتا ہے-پاپولر سیاست میں فیک نیوز اور سازشی تھیوریوں کی بھرمار ہوتی ہے-پاپولر لیڈر مطلق العنان بن جاتے ہیں وہ آئین کو اہمیت نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ آئین اور قانون ہے-