نعرہ حق

دنیا کی بیشتر اقوام میں دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ اپنی شناخت کے حوالے سے ان قوموں کی اولین ترجیح انکی قوم پرستی ہوتی ہے جبکہ ہماری بدنصیبی دیکھیئے کہ ہمارے عوام کا اکثریتی طبقہ ہر جگہ اپنی شناخت کے حوالے سے شخصیت پرستی کو قوم پرستی پر ترجیح دیے ہوتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں کہ بروز اتوار انڈیا پاکستان کے میچ میں ایک مخصوص نعرہ کے بینر کے ساتھ اسٹیڈیم کے اوپر کوئی جہاز اڑان بھرتا نظر آیا اور نیچے پاکستانی اوریجن کے کراو¿ڈ کا ایک اچھا خاصا پڑھا لکھا طبقہ اس پر نعرے مارتا نظر آیا، اس سے پہلے بھی یہ غالبا 1978ءکی بات ہے جب اس وقت جنرل ضیاءکے زیر عتاب ایک سیاسی پارٹی نے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کرکٹ کے ایک میچ کے دوران اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے ایک اس سے ملتے جلتے عمل کی داغ بیل ڈالی تھی جس میں جہاز نے اڑان تو نہیں بھری تھی لیکن زمین پر جو ہوا تھا وہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا۔ 
راقم کو بروز اتوار اس ہونے والی کمپین پر کوئی حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ 28 مئی کے دن سے لگاتار ایک ڈیڑھ ہفتہ ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے جسطرح اپنے ملک کے ایٹمی اثاثہ جات کو تمسخر کا نشانہ بنایا اسکے آگے تو اب یہ عمل آٹے میں نمک کے برابر نظر آتا ہے۔ دیکھا جائے تو اتوار کو ہونے والا یہ عمل بلاشبہ یہ ایک سپانسرڈ کمپین تھی اور اسکو سپانسر کرنے والے کی نیت پر شک بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ اسکے نزدیک جو بات حق پر مبنی تھی اس نے اسکو بلند کیا جو کہ آزادی رائے کے تحت اسکا حق بنتا ہے۔ لیکن کاش جس جذبہ جہاد کے ساتھ یہ نعرہ حق بلند کرنے کیلیئے وہ مرد مجاہد نکلا اسے یاد ہوتا ہے کہ جس ملک میں اس نے جس جہاز کی نعرہ آزادی کے بینر کے ساتھ اڑان بھروائی ہے اس ملک کی جیل میں بغیر کسی جرم ایک عافیہ صدیقی بھی مقید ہے جس کیلئے اس بینر کے ساتھ ایک بینر عافیہ صدیقی کیلئے بھی بنتا تھا۔ کاش اس کو یہ خیال بھی آتا کہ اس روئے زمین پر فلسطین اور کشمیر کے بھی خطے ہیں جہاں صدی کے سب سے بڑی نسل کشی کا عمل بڑے تسلسل سے جاری ہے۔ لیکن کیا کیا جائے مصلحت اندیشی کا بھی تو اپنا وجود ہے۔
قارئین! اس شخصیت پرستی میں پاکستانی عوام کا بھی کوئی قصور نہیں دراصل ہمارے ہاں منصوبہ سازوں نے ہمارے عوام کی اسطرح ذہن سازی کر دی ہے کہ انکے نزدیک چاہے مذہبی فرقہ بندی ہو یا سیاست، انکی طے کردہ ترجیح ہی حق اور سچ ہے جبکہ باقی سب جھوٹ اور باطل پر مبنی ہے۔ سیاست کے میدان کو ہی دیکھ لیں یہ کسی ایک سیاسی پارٹی کی بات نہیں پاکستان کی کوئی ایک سیاسی پارٹی دیکھ لیں۔ ساری کی ساری پارٹی صرف ایک شخصیت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے چاہے وہ آج سے چالیس سال پہلے اللہ کو پیاری ہو گئی تھی یا وہ پچھلے تیس چالیس سال سے کسی نہ کسی حوالے سے سانسوں کی حد تک زندہ ہے۔ لیکن قحط الرجال اپنی ان انتہاو¿ں پر ہے کہ جب کبھی ان پارٹیوں میں سے کوئی ایک رکن اپنی پارٹی پالیسیوں یا منشور پر بات کرنے کیلئے آتا ہے تو وہ اپنے ان لیڈران کا کوئی وڑن یا کوئی پالیسی پروگرام بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے جو مستقبل میں وجود پذیر ہوتا نظر آ سکے۔ ما سوائے اسکے کہ وہ ان سیاسی دیوتاو¿ں کی شان میں قصیدہ گویوں کی انتہاءکر دیتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اس قصیدہ گوئی میں ضمیر فروشی کی ان حدوں کو چھو جاتے ہیں جہاں ہم زمینی حقائق کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ ایسی ہی صورتحال کی تازہ مثال آجکل پاکستان کے معاشی حالات ہیں۔ پرنٹ میڈیا جو کبھی میڈیا کی اصل طاقت ہوتی تھی وہ چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔ قارئین آپ دیکھ رہے ہونگے کہ آجکل وہاں تسلسل سے ایک کمپین چل رہی ہے کہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا گراف بڑی تیزی سے نیچے آ رہا ہے اور پھر وہی بات اشتہاری مہم میں مخصوص تصویروں کے ساتھ اپنے عروج پر ہے۔
 اب آئیے ذرا زمینی حقائق کی طرف کہ پاکستان میں زرعی اجناس میں ایک بڑے پیمانے پر اور پٹرولیم پراڈکٹس میں ایک خاص حد تک جو کمی دیکھنے میں آ رہی ہے کیا وہ کسی کامیاب حکومتی پالیسی کے نتیجے میں آئی ہے اور عوام الناس تک اسکے کس حد تک فوائد پہنچ رہے ہیں۔ جب اس طرف دیکھتے ہیں تو پوری دنیا کے حالات اس وقت چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ اس سال سے پوری دنیا میں زرعی اجناس کی فصلیں امید سے زیادہ اچھی ہوئی ہیں جسکی وجہ سے پوری دنیا میں انکی قیمتوں کا گراف نیچے ہے، جہاں تک پاکستان میں انکی اچھی پیداوار کا تعلق ہے تو یہ بات ایک ان پڑھ جاہل کو بھی پتہ ہے کہ پچھلے سال کے سیلابوں کی وجہ سے زیر آب آنے والے علاقوں کی پیداواری صلاحیت قدرت طور پر بڑھی جسکی وجہ سے اس سال اچھی فصلیں ملیں۔
 اب یہاں شروع ہوتا ہے وہ مرحلہ جہاں حکومتی کارکردگی ایک طرف اس اچھی فصل کے فوائد ایک عام آدمی تک پہنچانے کا بندوبست کرے اور دوسری طرف ان اچھی فصلوں کی پیداوار کو اسطرح محفوظ کر لے کہ اگر خدانخواستہ اگلے سال کوئی موسمی تغیرات ان فصلوں پر اثرانداز ہوں اور پیداوار میں کوئی کمی ہو تو اس کو ہم ان اسٹاک سے مینج کر لیں۔ راقم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بڑے شہروں کے تندور ہوٹل اور دوکانیں اور عام آدمی کی آہ و زاری دیکھ لیں سب حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ اس سے آگے چلیں، پٹرولیم پراڈکٹ کی پوری دنیا میں قیمتیں کم ہو رہی ہیں آپ نے بھی کہیں زیر زبر سے کام لیا لیکن عوام اور آپکی انڈسٹری کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگی بجلی ہے۔ کیا کوئی سوچ رہا ہے کہ توانائی پیدا کرنے کے ذرائع سستا ہونے کے باوجود اتنی مہنگی بجلی کیوں؟ ہر طرف ان آئی پی پیز کے خلاف ان معاہدوں کا از سر نو جائزہ یا منسوخی کیوں نہیں ؟ عوامی مفاد کا ہر معاملہ اگر عدالتیں دیکھ سکتی ہیں تو یہ ڈریکولا معاہدے کیوں زیر بحث نہیں لائے جا سکتے۔ بات پھر وہی شخصی مفادات اور ترجیحات کی آ جائے گی۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن