تعلیمی انحطاط کی کہانی

وہ قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں جہاں تعلیمی انحطاط ہوتا ہے۔ تعلیم وہ شعبہ ہے جو کسی بھی قوم اور معاشرے کی نمواور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم ہی سے ذہنی صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے اور تعلیم ہی سے انسان معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ انسانیت کی بھلائی کے لیے خود کو راغب کرتا ہے اورنئی منزلوں کی طرف گامزن ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیم انسانی سوچ کو خوبصورت اور تعمیری بناتی ہے۔ اسے اپنے ہم نفسوں میں ممتاز حیثیت عطا کرتی ہے۔ آئے روز تعلیمی اداروں اور ان اداروں کے ارباب اختیار کے متعلق منفی خبریں میڈیا پر اجاگر ہوتی رہتی ہیں۔ کرپشن کے الزام پر فلاں سکول کے ہیڈ ماسٹر یا فلاں ادارے کے پرنسپل کی خدمات کسی دوسرے ونگ کے سپرد کر دی گئیں یا انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ جعلی ڈگری ثابت ہونے پر فلاں استاد کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ ان پر سکول میں غیر نصابی کتب کی فروخت، طلباءکے ناجائز جرمانے وصول کرنے اور دیگر بدعنوانیوں کے الزامات بھی لگتے ہیں جس کی انکوائری کے بعد مذکورہ احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ 
ہمارے طلباءو طالبات کیا تعلیمی مدارج صحیح طریقے سے طے کر رہے ہیں؟ ہمارے مستقبل کی ذہنی و اخلاقی آبیاری کرنے کی ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے کیا وہ صحیح خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟ اس کی ایک جھلک درج ذیل متن سے ظاہر ہے۔
پاکستان میں شرح خواندگی دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بے حد کم ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر نظام میں خرابیاں ہوتی ہیں مگر تعلیمی نظام میں خرابیوں کا صاف مطلب ہے کہ ترقی یافتہ اور بااخلاق قوموں میں آپ کا شمار نہیں ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں جن کا تدارک کئے بغیر نہ تو ہم تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ قوم کہلا سکتے ہیں۔
اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے ایسے اساتذہ پیدا کرنے ہوں گے جو صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہوں اوروہ اپنی قابلیت اور تعلیمی صلاحیتوں کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں کو جِلا بخشنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہوں۔ تعلیم کا شعبہ بنیادی توجہ کا متقاضی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو اساتذہ اور ان سے پڑھنے والے طلباءکی علمی استعداد قریباً یکساں ہوتی ہے۔ ایسے میں کم علمی کے حامل اساتذہ طلباءکو کیا پڑھا اور سکھا سکتے ہیں۔ اس لیے حکومتی سرپرستی میں اساتذہ کو تربیت دینے کی ضرورت بہت مسلمہ ہے۔ ایسے اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے جو اساتذہ کو تعلیم و تدریس کے ہنر سے بہرہ ور کر سکیں جس کے نتیجے میں پروفیشنل اساتذہ سامنے آئیں۔
پاکستان میں رائج نظامِ تعلیم اور نصاب عالمی تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ہمارے ہاں میٹرک کے طالب علم کی علمی استطاعت مغربی اور دیگر ممالک کے ششم کلاس کے طلباءسے بھی کم ہے۔ ہمارے ہاں ایم اے کی ڈگری والے کو دیگر ممالک میں گریجویشن سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے تعلیم کے شعبہ کو اپ گریڈ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں تعلیمی شعبے میں واجبی سرمایہ کاری نے ملک بھر میں شدید تعلیمی بحران پیدا کر رکھا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں کی بہت بڑی تعداد سکولوں میں جانے سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں روز بروز ناخواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہدقسمتی سے تعلیم کا شعبہ ہمارے پالیسی سازوں کے لیے ہمیشہ کم ترین ترجیحات میں سے ایک رہا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ کم وسائل والے ملک بھی اپنے تعلیمی نظام پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن میں افغانستان، صومالیہ، بھوٹان، سری لنکا اور نیپال جیسے ملک شامل ہیں۔ 
پاکستان میں عموماً بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کو اس کم توجہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہماری ترجیحات میں صرف اور صرف دفاعی اخراجات شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں دفاعی ادارے اپنے بجٹ کا اہم حصہ عسکری تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے ہیں۔ شاندار عمارتوں میں قائم یہ عسکری تعلیمی ادارے جدید ترین سہولتوں سے مزین ہیں۔
مختلف سروے رپورٹس اور سرکاری اعداوشمار کے مطابق بچوں کی بہت بڑی تعداد سکولوں میں جانے سے محروم ہے۔ پانچ سے 16سال تک کی عمر کے قریباً تین کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا تے۔ خود اندازہ لگا لیجئے کہ مستقبل میں ہماری شرح خواندگی کہاں ہو گی۔ حکومتی بے توجہی کے باعث تعلیمی میدان میں نجی شعبے نے تعلیم کا برا حال کر دیا ہے۔ گلیوں، محلوں اورپوش علاقوں میں واقع کوٹھیوں میں جو سکول کھلے ہوئے ہیں وہ ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں کہ وہاں نہ کوالیفائیڈ تربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔ نہ ان کی تعلیمی استطاعت اتنی ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو صحیح معنوں میں علمی زیور سے آراستہ کر سکیں۔ ا ن سکولوں میں رولز کے مطابق نہ سپورٹس گراﺅنڈ ہیں، نہ لیبارٹریز، نہ ہی لائبریریز ، پلے گرا?نڈ نہیں ہو گا تو بچوں کی جسمانی نشوونما کیسے ہو گی۔ بہترتعلیم کے لیے سکولوں میں اچھے اور خوشگوار ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے جو ، نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی سسٹم بیٹھ رہا ہے اور انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔
سکولوں سے دوری انتہائی غریب خاندان کے بچوں کی مجبوری ہے۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسی ترغیبی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ والدین بچوں کو کسی ہچکچاہت کے بغیر سکولوں میں بھیجنے پر آمادہ ہوں۔ انہیں باور کرایا جائے کہ تعلیم سے ناصرف ان کے بچوں کا بلکہ خود ان کا مستقبل بھی سنور سکتا ہے۔
جس ملک میں خواندگی کی شرح بڑھتی ہے۔ لوگ تعلیم یافتہ ہو جاتے ہیں۔ اس ملک کی ترقی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے۔ اس ساری بحث کا ماخذ یہ ہے کہ تعلیم کی طرف ہر ممکن توجہ دی جائے۔ تمام تر حکومتی ترجیحات میں تعلیم پہلی ترجیح ہو۔ سائنس ترقی کر چکی، نئی نئی ایجادات آ گئیں۔ ان سب سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمیں خواندہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم آنے والے ہر سال کو تعلیمی سال کے طور پر منائیں اور دیکھیں کہ دنیا کے مقابلے میں ہم خواندگی میں کہاں کھڑے ہیں۔ دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، خواندگی سے ہی آگے بڑھے ہیں۔ تعلیم کو ترجیح نمبر ون سمجھتے ہیں۔ کوئی مشکل نہیں، بڑا آسان ہے کہ ہم سنجیدہ ہو جائیں۔ پالیسی ساز تعلیم کے حوالے سے ایسی پالیسی بنائیں کہ جسے آئینی تحفظ حاصل ہو۔ سب اس پر کاربند ہو جائیں۔ آگے بڑھیں۔
ملک میں سکولوں کی بہت کمی ہے۔ یہ بات مختلف سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتی ہے کہ نئے سکولوں کے قیام کی جانب کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ کوئی ایسی پالیسی ہمارے سامنے نہیں کہ یقین ہو، اس پالیسی کی بدولت ہماری کایا پلٹ جائے گی۔ ہمیں ایک ذمہ دار اور سنجیدہ قوم بن کر سوچنا ہے کہ تعلیم ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے کتنی ضروری ہے۔ ہمیں اس پر کتنی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیم سے شعور آتا ہے اور شعور سے قوموں کو وقار ، عزت اور ترقی ملتی ہے۔ ہمیں اچھی قوم بننا ہے تو تعلیم کو ترجیحِ اوّل بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن