اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار) سینٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہوا جس میں مختلف بلز کی منظوری دی گئی اور کئی بلز ایوان میں پیش کر دیئے گئے۔ سینٹ نے پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ ترمیمی بل منظور کر لیا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ترمیمی بل، پاکستان براڈ کاسٹنگ کار پوریشن ترمیمی بل منظور کر لیا گیا۔ ایوان میں الیکشن ترمیمی آرڈیننس، قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پیش کر دیا گیا۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن نے ترمیمی بلز کی مخالفت کی اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اپوزیشن نے بلز کی کاپیاں پھاڑ دیں اور نعرے لگائے کہ ربڑ سٹمپ کی اجازت نہیں دیں گے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بلز کمیٹیوں کو بھجوا دیں۔ بل قومی اسمبلی سے پاس ہوتا ہے تو لازمی نہیں سینٹ ایسے ہی پاس کرے، آخری منٹ پر چیزیں لاکر بلڈوز کیا جاتا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نئے قوانین نہیں بن رہے ترمیم کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کہتا ہے ریاستی ملکیتی اداروں سے حکومتی کنٹرول قدرے کم کر دیں۔ یہ بلز ایجنڈے میں شامل ہیں۔ یہ چاروں قوانین ریاست کے وعدے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہم اپنا وعدہ پورا نہ کریں جیسا 2022ء میں ہوا تھا۔ کوئی چوری ڈکیتی نہیں یہ گڈ گورننس کیلئے ہے۔ اپوزیشن نے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا۔ قائد حزب اختلاف کے ریمارکس پر حکومتی اراکین نے ایوان کے اندر احتجاج کیا۔ وقفہ سوالات میں نجکاری پر بھی گفتگو ہوئی۔ سینٹ میں دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی سینیٹر ساجد میر نے کرائی۔ وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ سٹیل ملز میں پہلے ملازمین کی تعداد 5 ہزار تھی اب سٹیل ملز میں ملازمین کی تعداد 3 ہزار ہے۔ بند سٹیل ملز میں تین ہزار ملازمین کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ان تین ہزار ملازمین کو درخت لگانے پہ لگا دیا جائے تو کراچی نتھیاگلی بن جائے۔ وزیر صنعت رانا تنویر حسین نے سینٹ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ سٹیل ملز میں ملازمین پانچ ہزار سے کم ہو کر تین ہزار رہ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ برآمدات کا بڑھنا معیشت کیلئے اہم ہے۔ دوسرا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بھیجے محصولات ہیں۔ معیشت میں بہتری کا تیسرا ذریعہ بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ ایکسپورٹ کو بڑھائے بغیر پاکستان کی معیشت درست نہیں ہو سکتی۔ سینٹ میں پارلیمانی کمیٹیوں کا معاملہ زیر بحث رہا۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر شبلی فراز کے ریمارکس پر حکومتی اراکین نے احتجاج کیا۔ شبلی فراز کی تقریر کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ آپ قائد ایوان یا اپوزیشن لیڈر ہیں اس ہائوس کو خاص سپرٹ کے ساتھ چلائیں۔ شبلی فراز نے کہا کہ کمیٹیوں کے معاملے میں چیئرمین آپ کردار ادا کریں۔ پارلیمانی کمیٹیوں کے انتخابات کرائیں گے تو اپوزیشن ہر کمیٹی سے باہر ہو گا۔ اپوزیشن کو بائیکاٹ پر مجبور نہ کیا جائے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ اپوزیشن کو افہام و تفہیم سے چلنا چاہئے افہام و تفہیم نہیں ہو گا تو کمیٹیوں میں جگہ نہیں ملے گی۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے اور دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ خیبر پختونخوا میں علمائے کرام کو شہید کیا جارہا ہے اور مساجد پر بم حملے ہورہے ہیں۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے سینٹ کمیٹیوں کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایوان بالا کو ربڑ سٹیمپ قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ چند روز قبل مالاکنڈ یونیورسٹی میں ایک طالب علم کو ہاسٹل سے اس وجہ سے نکالا گیا ہے کہ اس کے پاس کمرے میں رباب تھا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے تعلیمی اداروں میں نشے عام ہیں اس کی کوئی فکر نہیں، تعلیمی اداروں میں اسلحہ چل رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے صوبے میں گندم کا لگ بھگ 5ارب روپے کا گھپلا ہوا ہے۔ پنجاب سے سستی گندم خرید کر صوبے میں مہنگی فروخت کی گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر اس کی تحقیقات کریں۔ بعدازاں اجلاس آج بدھ شام چھ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔