کچھ لوگ اخبارات پڑھنا اور ٹی وی نیوز چینل دیکھنا اس لئے چھوڑ رہے تھے کہ ان کو خبروں کے نام پر جو پڑھنا اور دیکھنا پڑتا اس سے ٹنشن ہو جاتی تھی۔ اب چند دن سے صورتحال خاصی بدل چکی ہے۔ میڈیا میں جو کچھ آ ر ہا ہے اس سے گدگدی سی ہونے لگتی ہے جس سے سنجیدہ قارئین اور ناظرین باقاعدہ ہنستے اور کئی قہقہے لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ شیخ صاحب کہہ رہے تھے ’’پھوکی‘ پھیکی‘ لوٹ مار اور مار دھاڑ کی خبریں پڑھ اور دیکھ کر میں تو دلبرداشتہ ہو گیا تھا اب جلسے جلوس ریلیاں پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں جس میں انفارمیشن کے ساتھ ساتھ خاصا مزاح بھی ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے اخبارات نہ پڑھنے نیوز چینلز نہ دیکھنے کی قسم توڑ ڈالی ہے۔ ’’قسم توڑنے کا کفارہ بھی ادا کیا ہے‘‘ خواجہ صاحب کا سوال بالکل درست تھا۔
’’ہاں بھئی کیوں نہیں۔ خدا کو جان دینی ہے۔ کفارہ بھی ادا کر دیں گے روزوں میں زیادہ ثواب ہوتا ہے‘‘ شیخ صاحب نے اپنی مذہب سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’شیخ صاحب یہ انصاف نہیں ہے‘‘ خواجہ صاحب نے ذرا ترشی سے کہا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ میں نے حیرانگی سے خواجہ صاحب سے پوچھا۔
’’جناب یہ ایک مرتبہ روزہ توڑ بیٹھے مولوی صاحب سے کفارے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے 60 مسکینوں کے لئے سحری و افطاری کیلئے کہا۔ شیخ صاحب ایک غریب کے پاس گئے اس سے پوچھا سحری اور افطاری میں کیا کھاتے پیتے ہو۔ غریب نے بے بسی و بے کسی ظاہر کرنے کے لئے کہا جناب پانی سے روزہ رکھتے ہیں اور نمک سے کھولتے ہیں۔ شام کو شیخ صاحب ان کو کلو نمک اور پانی کی 60 بوتلیں دے آئے اور اپنی طرف سے فرض کفارہ سے فارغ ہوگئے‘‘۔
ایسی قسمیں توڑنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو ر ہا ہے۔ اس میں کمال میڈیا کا نہیں سیاستدانوں کا ہے۔ شہباز شریف نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مشیر داخلہ رحمن ملک کو جھوٹوں کا آئی جی قرار دیا اور اسی جلسہ میں کہا وہ وٹو کو چٹو بنا دیں گے اس پر جہاں حاضرین لوٹ پوٹ ہوئے وہیں ٹی وی ناظرین اور اگلے دن اخباری قارئین مسکرا اٹھے۔ اب دلچسپ صورتحال ہے۔ رحمن ملک صاحب کا کہنا ہے کہ وہ شہباز شریف کو ایک ارب روپے کا نوٹس دیں گے۔
رحمن ملک کو پتہ نہیں غصہ ان کو جھوٹا قرار دینے پر ہے یا آئی جی کہنے پر۔ ملک صاحب کو مشیر داخلہ کہا جاتا ہے حالانکہ وہ تمام امور پر بات کرتے ہیں۔ غیر ملکی دورہ پر بھی جاتے ہیں خارجہ امور میں خاصی مہارت اور دلچسپی رکھتے اور پریکٹس بھی کرتے ہیں اس لحاظ سے ان کو مشیر ہر فن مولانا کہنا چاہیے۔
نوازشریف نے جلسے میں بغاوت کا اعلان کیا ہم تو سمجھے تھے انہوں نے کرپٹ سسٹم جھوٹ اور دھوکہ دہی کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ہے حکومت نے کہہ دیا کہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہمارے گھر کی ساتھ والی گلی سے پولیس کانسٹیبل گزر رہا تھا۔ ایک گھر سے اونچا بولنے کی آواز پر وہ رک گیا۔ نوجوان کہہ رہا تھا ابو جی میں سہرا لگائوں گا نہ جہیز کا مطالبہ کرونگا۔ میں باجے پٹاخے اور وسیع و عریض ولیمے کا بھی اہتمام نہیں کرونگا۔ میں ایسے رواج سے بغاوت کرتا ہوں جس سے غریب کا استحصال ہو۔ بغاوت کا لفظ سننا تھا کہ کانسٹیبل دروازے کو لات مار کر گھر میں جا گھسا۔ گھر والے سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ کاکے سپاہی نے پوچھا کون بغاوت کا اعلان کر رہا تھا۔ گھر والوں نے کہا حضور بچے نے حکمرانوں‘ آئین اور قانون کے خلاف بغاوت کی بات نہیں کی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی رسموں کے خلاف بات کی ہے۔ اس پر چن ماہی دھاڑا ’’کیا تم رحمن ملک صاحب سے زیادہ سیانے ہو۔ چلو آگے لگو تھانے چلو۔ تھوڑی دیر میں نوازشریف بھی اس کیس میں پکڑا جائیگا۔ اب مجھ سے معافی نہ مانگنا۔ یہ بری عادت مجھے پسند نہیں؟‘‘ جھگڑا سنا تو خواجہ صاحب اور شیخ صاحب بھی آگئے۔ شیخ صاحب نے لڑکے کے والد کو ایک طرف لے جا کر کھسر پھسر کی۔ جس پر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اڑھائی سو روپے ان کے حوالے کر دئیے شیخ صاحب نے راز داری سے پچاس روپے کانسٹیبل کے مٹھی میں دیتے ہوئے کہا چودھری صاحب جھڈو جی مٹی پائو منڈے نے بغاوت سے توبہ کر لی ہے۔ کانسٹیبل صاحب مٹھی بند کر کے چلے گئے شیخ صاحب اور خواجہ صاحب بھی اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے راستے میں شیخ صاحب نے خواجہ صاحب کو 200 روپے تھماتے ہوئے کہا تم رمضان المبارک کا انتظار نہیں کر سکتے لو یہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے جتنے چاہو مسکینوں کو کھانا کھلائو۔ ہاں البتہ میرا حصہ مجھے ضرور پہنچا دینا۔
’’ہاں بھئی کیوں نہیں۔ خدا کو جان دینی ہے۔ کفارہ بھی ادا کر دیں گے روزوں میں زیادہ ثواب ہوتا ہے‘‘ شیخ صاحب نے اپنی مذہب سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’شیخ صاحب یہ انصاف نہیں ہے‘‘ خواجہ صاحب نے ذرا ترشی سے کہا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ میں نے حیرانگی سے خواجہ صاحب سے پوچھا۔
’’جناب یہ ایک مرتبہ روزہ توڑ بیٹھے مولوی صاحب سے کفارے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے 60 مسکینوں کے لئے سحری و افطاری کیلئے کہا۔ شیخ صاحب ایک غریب کے پاس گئے اس سے پوچھا سحری اور افطاری میں کیا کھاتے پیتے ہو۔ غریب نے بے بسی و بے کسی ظاہر کرنے کے لئے کہا جناب پانی سے روزہ رکھتے ہیں اور نمک سے کھولتے ہیں۔ شام کو شیخ صاحب ان کو کلو نمک اور پانی کی 60 بوتلیں دے آئے اور اپنی طرف سے فرض کفارہ سے فارغ ہوگئے‘‘۔
ایسی قسمیں توڑنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو ر ہا ہے۔ اس میں کمال میڈیا کا نہیں سیاستدانوں کا ہے۔ شہباز شریف نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مشیر داخلہ رحمن ملک کو جھوٹوں کا آئی جی قرار دیا اور اسی جلسہ میں کہا وہ وٹو کو چٹو بنا دیں گے اس پر جہاں حاضرین لوٹ پوٹ ہوئے وہیں ٹی وی ناظرین اور اگلے دن اخباری قارئین مسکرا اٹھے۔ اب دلچسپ صورتحال ہے۔ رحمن ملک صاحب کا کہنا ہے کہ وہ شہباز شریف کو ایک ارب روپے کا نوٹس دیں گے۔
رحمن ملک کو پتہ نہیں غصہ ان کو جھوٹا قرار دینے پر ہے یا آئی جی کہنے پر۔ ملک صاحب کو مشیر داخلہ کہا جاتا ہے حالانکہ وہ تمام امور پر بات کرتے ہیں۔ غیر ملکی دورہ پر بھی جاتے ہیں خارجہ امور میں خاصی مہارت اور دلچسپی رکھتے اور پریکٹس بھی کرتے ہیں اس لحاظ سے ان کو مشیر ہر فن مولانا کہنا چاہیے۔
نوازشریف نے جلسے میں بغاوت کا اعلان کیا ہم تو سمجھے تھے انہوں نے کرپٹ سسٹم جھوٹ اور دھوکہ دہی کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ہے حکومت نے کہہ دیا کہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہمارے گھر کی ساتھ والی گلی سے پولیس کانسٹیبل گزر رہا تھا۔ ایک گھر سے اونچا بولنے کی آواز پر وہ رک گیا۔ نوجوان کہہ رہا تھا ابو جی میں سہرا لگائوں گا نہ جہیز کا مطالبہ کرونگا۔ میں باجے پٹاخے اور وسیع و عریض ولیمے کا بھی اہتمام نہیں کرونگا۔ میں ایسے رواج سے بغاوت کرتا ہوں جس سے غریب کا استحصال ہو۔ بغاوت کا لفظ سننا تھا کہ کانسٹیبل دروازے کو لات مار کر گھر میں جا گھسا۔ گھر والے سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ کاکے سپاہی نے پوچھا کون بغاوت کا اعلان کر رہا تھا۔ گھر والوں نے کہا حضور بچے نے حکمرانوں‘ آئین اور قانون کے خلاف بغاوت کی بات نہیں کی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی رسموں کے خلاف بات کی ہے۔ اس پر چن ماہی دھاڑا ’’کیا تم رحمن ملک صاحب سے زیادہ سیانے ہو۔ چلو آگے لگو تھانے چلو۔ تھوڑی دیر میں نوازشریف بھی اس کیس میں پکڑا جائیگا۔ اب مجھ سے معافی نہ مانگنا۔ یہ بری عادت مجھے پسند نہیں؟‘‘ جھگڑا سنا تو خواجہ صاحب اور شیخ صاحب بھی آگئے۔ شیخ صاحب نے لڑکے کے والد کو ایک طرف لے جا کر کھسر پھسر کی۔ جس پر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اڑھائی سو روپے ان کے حوالے کر دئیے شیخ صاحب نے راز داری سے پچاس روپے کانسٹیبل کے مٹھی میں دیتے ہوئے کہا چودھری صاحب جھڈو جی مٹی پائو منڈے نے بغاوت سے توبہ کر لی ہے۔ کانسٹیبل صاحب مٹھی بند کر کے چلے گئے شیخ صاحب اور خواجہ صاحب بھی اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے راستے میں شیخ صاحب نے خواجہ صاحب کو 200 روپے تھماتے ہوئے کہا تم رمضان المبارک کا انتظار نہیں کر سکتے لو یہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے جتنے چاہو مسکینوں کو کھانا کھلائو۔ ہاں البتہ میرا حصہ مجھے ضرور پہنچا دینا۔