تہران (نوائے وقت نیوز + اے پی پی + اے پی اے) صدر آصف علی زرداری نے ایرانی صدر احمدی نژاد کے ساتھ مل کر پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ جس سے پاکستان اور ایران نے 7.5 ارب ڈالر مالیت کے اس گیس منصوبے کا باضابطہ آغا کر دیا۔ اس منصوبے کا مقصد پاکستان میں توانائی بحران پر قابو پانا ہے۔ تقریب میں عرب ممالک کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ تقریب کا انعقاد پاکستان، ایران سرحدی علاقے چاہ بہار میں کیا گیا۔ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن مصوبے سے پاکستان کو یومیہ 75 کروڑ مکعب فٹ گیس ملے گی۔ ایرانی کمپنی پاکستان، ایران سرحد سے نوابشاہ تک 785 کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کریگی۔ ایران نے اپنی حدود سے گزرنے والی گیس پائپ لائن کا بیشتر کام پہلے ہی مکمل کر لیا ہے۔ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے 2 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل ہو گی۔ معاہدے کو امن پائپ لائن کا نام دیا گیا ہے۔ منصوبہ 2014ءمیں مکمل ہو گا۔ ایرانی صدر احمدی نژاد نے کہا کہ آج پاکستان، ایران اور خطے کیلئے تاریخی دن ہے۔ پائپ لائن منصوبہ دونوں ملکوں کو مزید قریب لائیگا۔ مستقل مزاجی اور عزم سے منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ ترقی کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان زرعی شعبے میں ایران سے تعاون کر رہا ہے۔ علاقائی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ گیس پائپ لائن منصوبے کو پاکستان کے شمال تک توسیع دی جا سکتی ہے۔ ہم نے ملکر اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنا ہے۔ پاکستان کو بجلی بھی فراہم کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کا جوہری تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرینگے۔ غیر ملکی عناصر پاکستان، ایران دوستی پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ اس موقع پر صدر زرداری نے کہا کہ اسلامی دنیا کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ دنیا کا امن پاکستان کے امن سے منسلک ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ کسی کیخلاف نہیں، سب کی مدد کرنا چاہتے ہیں، کوئی ہمیں ہماری شناخت نہ بتائے، ہماری واحد شناخت پاکستان ہے، کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں 5 سالہ جمہوریت کا چلنا سوچ سے بھی باہر تھا۔ ایران سے مذہب اور ثقافت کے رشتے سے جڑے ہیں۔ ہمیں ایران سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے۔ صدر زرداری نے کہا کہ عالمی برادری مسائل کے ادارک کے باوجود حل نہیں جانتی، گیس منصوبہ ہمارے لئے بے حد اہم ہے، بحیثیت قوم ہمیں اپنی قوت کا اندازہ ہونا چاہئے، عالمی برادری جان لے دنیا کا امن پاکستان کے امن سے ہی وابستہ ہے، ہم کسی کے خلاف نہیں سب کی مدد کرنے کے خواہاں ہیں لیکن دوسروں کی مدد سے قبل ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ پاکستان میں جمہوریت کے پانچ سال مکمل ہونا سوچ سے بھی باہر تھا، خاتون سپیکر اسمبلی اور خاتون وزیر خارجہ جمہور ی استحکام کا ثبوت ہے۔ اسلامی دنیا کو کئی مشکلات کا سامنا ہے جنہیں ملکر حل کرنا ہو گا، ایران نے اپنی قیادت کے ذریعے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا، ایران سے مذہب اور ثقافت کا رشتہ ہے جس میں مزید بہتری کے لئے ہمیشہ خواہاں رہیں گے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ مستقل مزا جی اور عزم بلند ہو تو منزل کا حصول مشکل نہیں رہتا، ہزار کوششوں کے باوجود غیر ملکی عناصر پاکستان ایران دوستی پر اثرانداز نہیںہو سکتے، منصوبے پر عالمی تحفظات بے بنیاد ہیں، یہ امن منصوبہ ہے بلکہ گیس پائپ لائن کو پاکستان کے شمال تک توسیع دی جا سکتی ہے، پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا پورا اندازہ ہے اور اس ضمن میں بجلی بھی فراہم کریں گے۔ علاقائی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، پاکستان کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کا کام کرنا ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نقاد نے کہا کہ گیس پائپ لائن منصوبہ کامیابی سے مکمل کریں گے۔ یہ پاکستان، ایران اور خطے کے لئے تاریخی دن ہے، مستقل مزاجی اور عزم سے منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہم نے مل جل کر اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا ہے او علاقائی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا ج اسکتا ہے۔ پائپ لائن منصوبہ دونوں ممالک کو مزید قریب لائے گا۔ دونوں ممالک میں 7.6 ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ایران کے جنوب میں فارس گیس فیلڈ اور بلوچستان اور پنجاب میں ملتان سے جوڑا جانا ہے۔ اس منصوبے کو امن پائپ لائن کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دسمبر 2014 تک منصوبے کی تکمیل نہ ہونے پر تاخیر کی وجہ بننے والے ملک کو بھاری جرمانہ دینا ہو گا۔ دونوں صدور نے اس تاریخی میگا پراجیکٹ کی تختی کی نقاب کشائی کی۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی محمد بن دھان الحمیلی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ، وزیر تجارت مخدوم امین فہیم، وزیر مواصلات ارباب عالمگیر خان، وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی کے علاوہ ایرانی وزیر تیل رستم قاسمی، وزیر صنعت و تجارت مہدی غضنفری بھی تقریب میں موجود تھے۔ 1600 کلومیٹر طویل اور 42 انچ قطر کی حامل اس پائپ لائن سے روزانہ ایران سے پاکستان کو 21.5 ملین کیوبک میٹر قدرتی گیس حاصل ہو گی۔ ایران اپنے علاقے میں 900 کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر کا کام پہلے ہی مکمل کر چکا ہے۔ قبل ازیں صدر آصف علی زرداری صوبہ سیستان میں چاہ بہار ایئرپورٹ پہنچے تو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ پائپ لائن کی افتتاحی تقریب سے قبل مختصر ملاقات میں صدر آصف علی زرداری اور ان کے ایرانی ہم منصب نے امید ظاہر کی کہ یہ منصوبہ دونوں ممالک اور خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کو فروغ دے گا۔ دونوں رہنماﺅں نے کہا کہ اس منصوبے سے پاکستان اور ایران میں اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی روابط میں اضافہ ہو گا۔منصوبے کے سنگ بنیاد کی تقریب کے بعد وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کسی کے خلاف یا کسی کے فائدے میں نہیں سوائے پاکستان کے۔ امریکہ نے کسی بھی فورم پر حکومتِ پاکستان کے ساتھ اس کے متعلق تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے سرکاری طور پر ایسا کیا ہوتا تو حکومت اس کے متعلق ان سے مذاکرات کر سکتی تھی۔ ترکمانستان، افغانستان پائپ لائن پراجیکٹ شروع کرنا ہی بڑا مشکل ہے کیونکہ اس کو افغانستان کے امن سے جوڑا گیا ہے۔ مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ایران سے گیس کی درآمد کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ”جب گیس درآمد شروع ہو گی تو پاکستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچ جائے گی۔“ اگر یہ منصوبہ طے شدہ وقت کے مطابق مکمل ہوا تو پاکستان کو دسمبر 2014ءمیں ایران سے گیس ملنا شروع ہو جائے گی۔ پاکستانی حکام اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ توانائی کے شدید بحران نے ناصرف مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کیا بلکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔
واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان ایران پائپ لائن منصوبے پر پیشرفت ہوئی تو پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ گیس پائپ لائن منصوبے پر متعدد بار خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ پاکستان سے تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ توانائی کے دوطرفہ منصوبوں کے لئے تیار ہیں۔ پاکستان کے پاس اس منصوبے سے بہتر متبادل راستے بھی ہیں۔ امریکہ پاکستان میں توانائی کے بڑے منصوبوں میں مدد دے رہا ہے۔ ایران پر انحصار میں کمی کے بعد یورپی یونین اور جاپان پر پابندیاں نرم کیں۔