تالیوں کی بھرپور گونج میں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کے سربراہان ممالک کے اجلاس سے خطاب کرنے کیلئے ڈائس پر پہنچا تو یوں گویا ہوا ”ابھی مجھ سے پہلے دنیا کا شیطان عظیم خطاب کر رہا تھا اسی لئے تو مجھے اسکے الفاظ سے سلفر کے جلنے کی بدبو آ رہی تھی“ یہ الفاظ تھے مظلوموں اور غریبوں کے چیمپئن اور وینزویلا کے ہردلعزیز رہنما ہیوگو شاویز کے امریکہ کے طاقتور صدر جارج بش کے متعلق، انکے یہ الفاظ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے براہ راست ٹیلی کاسٹ کے ذریعے تمام دنیا کے افراد نے سُنے۔ جرا¿ت اور بہادری کے عظیم پیکر نے اپنے خطاب کے بعد ایرانی صدر سے بڑی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے اور معانقہ کرتے ہوئے ازراہ مذاق یہ الفاظ کہے کہ ”کب امریکہ پر میزائل گرا رہے ہو“ یہ الفاظ بھی مائیک آن ہونے کی وجہ سے اسمبلی ہال میں بش سمیت تمام سربراہان ممالک نے سُنے، بش کے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں اور ہال میں تمام ممالک کے سربراہان ممالک کی سٹی گم ہو گی۔ ہیوگو شاویز امریکی سامراج سے شدید نفرت کرتا تھا۔ وہ امریکہ کی مجنونانہ توسیع پسندی کا سخت مخالف تھا۔
2 فروری 1999ءکو پہلی مرتبہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے ساتھ ہی ہیوگو شاویز نے وائٹ ہاﺅس کو یہ پیغام دیدیا کہ وینزویلا لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کی طرح امریکی پالیسیوں کے تابع نہیں رہے گا۔ ہیوگو شاویز کی شدید جارحانہ پالیسیوں اور تیز و تند بیانات نے ہمیشہ وائٹ ہاﺅس کو پریشانی میں مبتلا رکھا جس کی وجہ سے سی آئی اے اور اسکے پروردہ لاطینی امریکہ کے ممالک اسکے خلاف معاندانہ اور حریفانہ چالیں چلتے رہتے۔ 11 اپریل 2002ءکو سی آئی اے شاویز کے مخالف فوجی افسروں اور دولت مند کاروباری لیڈر کیمرون کی مدد سے ملک میں پُرتشدد ہنگامے شروع کرا دئیے جس پر شاویز نے اقتدار چھوڑ دیا اور کیمرون نے عارضی حکومت کا صدر بننے کا اعلان کر دیا مگر پھر چشم فلک نے حیران کن نظارہ دیکھا، لاکھوں غریب لوگ شاویز کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے اور تین دن بعد 14 اپریل 2002ءکو شاویز دوبارہ وینزویلا کے صدر کے طور پر بحال ہو گیا۔ یہ تھی عوام کی محبت جس کے سہارے ہیوگو شاویز سرعام یہ کہتا کہ بش دہشت گرد ہے بش فاشسٹ ہے۔
وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز ہمیشہ ایران، کیوبا، لیبیا، عراق کی حمایت کرتے تھے۔ کیوبا کے صدر فیڈرل کاسترو کو وہ اپنا استاد قرار دیتے تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جب ایران کیخلاف قرارداد منظور کی تو وینزویلا وہ واحد ملک تھا جس نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ہیوگو شاویز مرتے دم تک اپنے ملک کا دفر رہا اور وہ لاطینی امریکہ کے عظیم ترین کردار اور لافانی ہیرو سائمن بولیور کے افکار اور نظریات سے بے حد متاثر تھا لہٰذا اسے وینزویلا میں غریب عوام کی بہتری کیلئے تعلیم، صحت اور روزگار کیلئے جو اصلاحات کیں انہیں بولیورین انقلاب کا نام دیا گیا۔ ہیوگو شاویز کا فکری رہنما بولیور انیسویں صدی کا وہ جنرل ہے جس نے لاطینی امریکہ میں سپینش نوآبادتی تسلط کیخلاف جنگ لڑی اور اسے آج بھی لاطینی امریکہ میں بے حد احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے لہٰذا ہیوگو شاویز کے بولیورین انقلاب کا مفہوم سادہ الفاظ میں یوں ہے کہ ”عوام کی بہتری کیلئے تعلیم، اچھی صحت، سماجی انصاف، روزگار کی فراہمی، مساوات، اتحاد و یگانگت اور عوام کی حاکمیت درجہ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔“ اس نے لینن اور ماﺅزے تنگ کے سوشلزم میں ”اتھارٹی“ کو ختم کر کے جمہوریت میں شرکت کے نظریے کو متعارف کرایا اور ہمیشہ سامراجی طاقتوں کو ملک کے اندر اور باہر شکست سے دوچار کیا۔ ہیوگو شاویز اپنے معاشی اور سیاسی فلسفے کو 21ویں صدی کا سوشلزم قرار دیتا تھا۔
قارئین وینزویلا 21ویں صدی میں دنیا میں خام تیل کی برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے اور اس کی برآمدات کی کمائی میں تیل کی برآمد سے 85.3 فیصد آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ ہیوگو شاویز سے پہلے امریکہ کی آئل پیدا کرنے والی کمپنیوں کی اس پر اجارہ داری تھی امریکہ ہیوگو شاویز کا دشمن کیوں بنا کہ اس نے سب سے پہلے اپنے ملک کے تیل کی تجارت پر امریکی کمپنیوں کا کنٹرول ختم کر دیا اور ان کمپنیوں کو تیل کی برآمد کرنے پر زیادہ رائلٹی ادا کرنے کا پابند کیا گیا اور اسکے ساتھ ان سامراجی آئل کمپنیوں پر سٹیٹ کا کنٹرول قائم کر دیا گیا۔
قارئین جب پہلی دفعہ 1999ءمیں شاویز صدر بنا تو اس نے اپنا لئے تمام صدارتی عہدے کی مراعات ختم کر دیں۔ صدارتی لیموزین کو سکریپ کر دیا اور اپنی صدارتی عہدے کی تنخواہ 1200 ڈالرز ماہوار تعلیم کیلئے مختص سکالر شپ فنڈ میں دے دی۔ ہیوگو شاویز کے دور اقتدار میں تیل سے حاصل کردہ آمدنی 51 فیصد سے بڑھ کر 56 فیصد ہو گئی اور تیل کی برآمدات جو 1997ءمیں 77 فیصد تھیں 2006ءمیں بڑھ کر 89 فیصد تک پہنچ گئیں۔ جب 2003ءمیں تیل کی تجارت پر حکومت کا کنٹرول قائم ہو گیا تو افراط زر کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے وینزویلا کی معیشت کی خام قومی آمدنی کا حجم پانچ سالوں میں بڑھ کر دوگنا ہو گیا اور ان پانچ سالوں میں سوائے 2009ءکے سال کے وینزویلا کی معیشت سالانہ 13.5 فیصد شرح نمو کے ساتھ ترقی کی۔ 1998ءکے بعد ہوگیو شاویز نے ایک لاکھ سے زائد سرکاری کارپوریشنیں قائم کیں جہاں 1.5 ملین لوگوں کو روزگار فراہم کیا گیا اور نچلی سطح پر جمہوریت قائم کرنے کیلئے 30,000 کمیونٹی کونسلز قائم کی گئیں، اس کے علاوہ حکومت نے مل جُل کر رہنے والے افراد کیلئے 23 ملین ڈالرز کی لاگت سے ”کمیون“ قائم کئے جو اپنی خوراک خود پیدا کرتے تھے اور اپنی پنچائیت کے ذریعے تمام فیصلے خود کرتے تھے۔
ستمبر 2010ءمیں 203 ملین ڈالرز سے ہزاروں کمیونٹی پراجیکٹس قائم کئے وہ ہمیشہ اپنے کمیون کے وزیر سے کہتا تھا کہ بیورو کریسی کا کردار ختم کرو۔ لوگ اپنے اپنے مشترکہ رہن سہن کے ادارے یعنی کمیون خود چلائیں۔ ہیوگو شاویز نے تعلیم پر قومی آمدنی کا بجٹ 5.1 فیصد تک بڑھا دیا جو کہ اس سے پہلی حکومتوں میں محض 3.4 فیصد تھا۔ صحت پر 2000ءمیں جی ڈی پی کا 1.6 فیصد خرچ کیا جاتا تھا جو 2006ءمیں بڑھ کر 7.7 فیصد ہو گیا۔ سنٹر فار اکنامک اینڈ پالیسی ریسرچ کے مطابق ہیوگو شاویز کی اصلاحات کی وجہ سے وینزویلا کی معیشت نے 2004-07 تک اوسطاً 11.85 فیصد کی شرح سے ترقی کی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وینزویلا میں 1998ءمیں غربت کی شرح 55.44 فیصد تھی جو 2008 میں کم ہو کر 28 فیصد ہو گئی۔ اکتوبر 2009ءمیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن کیمطابق وینزویلا کے افراد کی خوراک حاصل کرنے کی کلوریز کی سطح 2790 کلوریز فی کس پر پہنچ گئی اور خوراک کی کمی کے شکار لوگوں کی تعداد جو 1998ءمیں 21 فیصد تھی کم ہو کر 6 فیصد ہو گئی ہے۔
شاویز نے ہمیشہ اپنے ملک میں غریبوں کو سرمایہ داروں کے ہاتھ استحصال سے روکنے کیلئے سختی سے بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں کی حد مقرر کر دی تھی اور اشیاءکو زائد قیمتوں پر فروخت کرنے یا ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو جرمانے کئے جاتے اور انکی خوراک کی اشیاءکے ذخیرے ضبط کر کے غریبوں کو کم قیمت پر فروخت کر دئیے جاتے ۔ اسکے علاوہ وینزویلا میں انسانی حقوق کی حالت بہتر، جرائم کی شرح کم اور میڈیا کو بھرپور آزادی حاصل تھی۔ وینزویلا کے 58 سالہ اس عظیم رہنما کا 11 دسمبر 2013ءکو کینسر کا چوتھا آپریشن ہوا اور آج جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو اس کی نعش ایک ہفتے کیلئے وینزویلا کے میوزیم میں رکھ دی گئی ہے۔ اسکے بنک اکاﺅنٹس خالی ہیں مگر وہ مرنے کے بعد بھی اپنے عوام کے دلوں میں بستا ہے۔ کاش پاکستان کو بھی کوئی ہیوگو شاویز، لی کوان یا نیلسن منڈیلا مل جائے جو انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے غریب اور مظلوم عوام کو حقیقی خود مختاری مل جائے۔ ایلس واکر کہتا ہے :
اچھے لوگ
جو عورتوں، بچوں اور غریبوں
کی دل جوئی کرتے ہیں، مر جاتے ہیں جلدی
بدخواہ انہیں آزار پہنچاتے ہیں
لیکن ہمارے دل ان کیلئے اشک بار ہوتے ہیں