مشرف پیش نہ ہوئے‘ فرد جرم کیلئے پرسوں طلبی‘ سابق صدر کے وکیل کے نازیبا الفاظ‘ عدالت نے باہر نکال دیا

 اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) خصوصی عدالت نے غداری کیس میں سابق صدر مشرف کو پیشی کے لئے14 مارچ تک کی مہلت دیدی جبکہ کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو سکیورٹی انتظامات مزید بہتر بنانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی انتظامات اور خطرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصی عدالت میں سکیورٹی خدشات سے متعلق دلائل دیتے ہوئے ان کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ مشرف پر ممکنہ حملے سے متعلق وزارت داخلہ نے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے وزارت داخلہ کا خط عدالت میں پڑھتے ہوئے کہا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق پرویز مشرف کو قاتلانہ حملے میں قتل کیا جا سکتا ہے۔ خصوصی عدالت محفوظ نہیں ہے وکلائ، ججز اور مشرف کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اگر مشرف کو عدالت آتے ہوئے کچھ ہوگیا تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا؟ مشرف کو سلمان تاثیر کی طرح مارا جاسکتا ہے، ایف ایٹ سانحہ کے بعد کو ئی محفوظ نہیں ہ، مشرف کیخلاف شکایت کنندہ نے خود کہہ دیا ہے کہ سابق صدر کی جان کو خطرہ ہے۔ پرویز مشرف کو عدالت حاضری کے دوران کچھ ہوا تو ذمہ داری تینوں ججوں پر ہو گی۔ اے ایف آئی سی سے خصوصی عدالت تک راستے کی مکمل ریکی کی جا چکی ہے، سانحہ اسلام آباد کے بعد عدالتیں اور وکلا بھی محفوظ نہیں جب تک عدالت ذمہ داری نہیں لے گی پرویز مشرف پیش نہیں ہونگے۔ جسٹس فیصل عرب نے احمد رضا قصوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں، وکالت کریں۔ قصوری  نے کہا کہ مشرف کو کچھ ہوا تو عدالت ذمہ دار ہو گی اور تاریخ آپ کو ذمہ دار ٹھہرائے گی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ تاریخ خود فیصلہ کرے گی، آپ وکالت کے دائرہ سے باہر نہ جائیں۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کی سکیورٹی کو دوگنا کر دیا گیا ہے پہلے ان کی سکیورٹی پر 11سو اہلکار تھے اب 22سو کر دیئے گئے ہیں جبکہ ایک خصوصی دستہ اے ایف آئی سی پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ اگر اجازت دی جائے مشرف کو حفاظتی تحویل میں لے کر عدالت پیش کیا جا سکتا ہے جبکہ مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے جا سکتے ہیں ابھی مشرف پولیس کی کسٹڈی میں نہیں بلکہ آزاد ہیں۔ انہوں نے اپنے سکیورٹی گارڈز ذاتی حیثیت میں رکھے ہیں جن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خصوصی عدالت نے استغاثہ کو سابق صدر کی سکیورٹی سے متعلق وزارت داخلہ سے مشاورت کر کے موقف سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔ مشرف کے وکیل رانا اعجاز نے روسٹرم پر آکر کہا کہ یہ ایک مذبح خانہ (سلاٹر ہائوس) ہے لیاری گینگ کی جانب سے  فون پر ان کو قتل کی دھکیاں مل رہی ہیں یہ ججز کی وجہ سے ہورہا ہے گذشتہ سماعت میں میں نے جسٹس فیصل عرب کو قاتل کہا تھا جس پر انہوں نے برداشت کا مظاہرہ کیا تھا جس کا مطلب ہے انہوں نے میری بات کو تسلیم کیا ہے، عدالت مجھے گرفتار کرکے جیل بھجوا دے اگر مجھے قتل کردیا گیا تو اس کا مقدمہ جسٹس فیصل عرب پر درج ہوگا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم مشرف کے وکلاء سے اس قدر بدتمیری کی توقع نہیں رکھتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ توہین عدالت کر رہے ہیں آپ روسٹرم چھوڑ دیں۔ رانا اعجاز کے روسٹرم نہ چھوڑنے پر جسٹس فیصل عرب نے سکیورٹی اہلکاروں کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو کمرہ عدالت سے باہر نکال کیا جائے  جبکہ مشرف کے وکلاء نے سکیورٹی اہلکاروں کو روکتے ہوئے رانا اعجاز کو کمرہ عدالت کے باہر لے جار کر چھوڑ دیا۔ جسٹس فیصل عدالت نے کہا کہ عدالت سے مذاق کیا جارہا ہے اگر رانا اعجاز نے معافی نہ مانگی تو عدالت ان کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کرے گی۔ وکلا عدالت کا احترام نہیں کرینگے تو عدالت بھی ان کا احترام نہیں کریگی۔ مشرف کے وکیل انور منظور خان بھی وقفے کے بعد عدالت آئے اور سکیورٹی انتظامات پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سکیورٹی انتظامات کو بہتر کیا جائے پھر مشرف پیش بھی ہو جائیں گے۔ عدالت جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرے جبکہ انہوں نے اس حوالے سے مہلت کی استدعا کی۔ وقفے کے بعد سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر کی سکیورٹی سے متعلق الرٹ خفیہ ایجنسی کی اطلاعات کے بعد جاری کیا گیا تھا  پرویز مشرف کی ممکنہ پیشی کے نظر سولہ سو کے قریب سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے الرٹ کے بعد تمام ضروری سکیورٹی اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی صورتحال کے باعث پرویز مشرف کی  طلبی کا حکم نہیں دے رہے۔ سکیورٹی خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ سکیورٹی حالات میں عدالت ملزم کو پیش ہونے کا نہیں کہہ سکتی۔ خصوصی عدالت نے سابق صدر کو پیشی کیلئے 14 مارچ تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کیخلاف فرد جرم بھی جمعہ کو عائد کی جائے گی۔ غداری کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ اے پی اے کے مطابق جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ مشرف کو دھمکی آمیز خط کے پیش نظر وزارت داخلہ کیا اقدامات کر رہی ہے۔ عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ بی بی سی اردو کے مطابق  جسٹس فیصل عرب نے کہا ’اگرچہ کہ سیکرٹری داخلہ کے بقول حکومت نے پرویز مشرف کے سکیورٹی کے مناسب انتظامات کئے ہیں لیکن ایسے حالات میں جس شخص کو دھمکیاں مل رہی ہوں وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں عدالت میں پیش ہونے کا نہیں کہا جا سکتا۔‘ مشرف کے وکلا نے پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہونے سے ایک دن کے استثنیٰ کی درخواست دی تھی جو عدالت نے منظور کر لی۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ وہ ملزم کی باحفاظت عدالت میں پیشی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔ چیف پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کی ذاتی سکیورٹی پر تعینات اہلکار سابق صدر کے پسندیدہ افراد ہیں اور اس میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر عدالت کہے تو حکومت سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی حفاظت کی ذمہ داری فوج کے اداروں انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس یا پھر ٹرپل ون بریگیڈ کو دینے کو تیار ہے۔ بینچ کے سربراہ نے ملزم کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پرویز مشرف کی عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر ان پر فرد جْرم عائد کردی جاتی تو پھر ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اس سے پہلے چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا تھا کہ اگر عدالت حکم دے تو حکومت پرویز مشرف کو تحویل میں لے کر باحفاظت عدالت میں پیش کر سکتی ہے اور پرویز مشرف کی سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری حکومتِ پاکستان پر ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’چونکہ پرویز مشرف کسی بھی مقدمے میں پولیس کو مطلوب نہیں ہے اور وہ ایک آزاد شہری ہیں اس لئے حکومت خود سے انھیں تحویل میں نہیں لے سکتی۔‘ جسٹس فیصل عرب نے کمرہ عدالت میں موجود پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو بارہا کہا کہ پرویز مشرف کے وکیل کو کمرہ عدالت سے نکال دیں لیکن پولیس اہلکار ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کمرہ عدالت میں موجود ایس ایس پی سپیشل برانچ نے جب پولیس اہلکاروں کو حکم دیا کہ رانا اعجاز کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے تو پھر کچھ پولیس اہلکار اپنی سیٹوں سے اْٹھے تو ضرور لیکن پرویز مشرف کی وکلاء  ٹیم میں شامل فیصل چودھری نے ان پولیس اہلکاروں کو آگے آنے سے روک دیا اور پولیس اہلکار فوری حکم بجالاتے ہوئے وہیں رک گئے۔ اس صورت حال میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پولیس اہلکار عدالت کے نہیں پرویز مشرف کے وکلاء  کا حکم مان رہے ہوں۔ جسٹس فیصل عرب نے جب اْونچی آواز میں پولیس اہلکاروں کو حکم دیا کہ اْسے باہر نکال دیں تو پھر پولیس اہلکار نہ چاہتے ہوئے بھی آگے بڑھے اور پرویز مشرف کے وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر لے گئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...