سیاسی مصلحتوں سے باہر نکل کر ہی امن کی مستقل بحالی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے
کراچی ٹارگٹڈ اپریشن میں مصروف پاکستان رینجرز نے بدھ کی علی الصبح پانچ بجے عزیز آباد کراچی میں ایم کیو ایم متحدہ کے مرکزی دفتر نائن زیرو اور اس سے ملحقہ خورشید میموریل ہال پر چھاپہ مارا اور وہاں سے بھاری اسلحہ برآمد اور سزا یافتہ اور مختلف مقدمات میں مطلوب متعدد ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ ترجمان رینجرز کرنل طاہر نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ چھاپوں کے دوران غیرملکی اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹس بھی برآمد ہوئی ہیں۔ اس غیرملکی اسلحہ میں نیٹو کے زیر استعمال اسلحہ بھی شامل ہے جو نیٹو کے کنٹینرز سے چوری کیا گیا جبکہ گرفتار ہونیوالے پانچ افراد میں صحافی ولی الرحمان بابر کے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت پانے والا ملزم فیصل موٹا اور 13 سال قید کی سزا پانے والا نادر اور ٹارگٹ کلرز بھی شامل ہیں۔ انکے بقول جرائم پیشہ افراد جہاں بھی ہونگے‘ ان کیخلاف کارروائی کرینگے۔ اس بنیاد پر ہی نائن زیرو میں اشتہاری اور دوسرے ملزمان کی موجودگی کی اطلاع پر رینجرز کی بھاری نفری نے نائن زیرو کے اطراف کا محاصرہ کیا اور وہاں الطاف حسین کی رہائش گاہ اور خورشید بیگم سیکرٹیریٹ پر چھاپے مارے۔ انہوں نے ایک سوال پر بتایا کہ ایم کیو ایم کے رہنماء عامر خان کو تفتیش کیلئے رینجرز نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی اسلحہ نائن زیرو کیسے پہنچا‘ اس بارے میں میڈیا کو مفصل بریفنگ دی جائیگی‘ نقصِ امن کا خطرہ بننے والے افراد کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائیگا اور کہیں پر بھی نوگو ایریا نہیں رہنے دیا جائیگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چھاپے کے دوران رینجرز اور نائن زیرو میں موجود لوگوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں وقاص شاہ نامی ایک نوجوان ہلاک ہو گیا۔ متحدہ کی جانب سے رینجرز پر وقاص شاہ کو ٹارگٹ کرکے گولی مارنے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ رینجرز ترجمان کا کہنا ہے کہ اس شخص کی ہلاکت رینجرز کی طرف سے چلنے والی گولی سے نہیں ہوئی۔
نائن زیرو کراچی پر چھاپہ بھی یقیناً رینجرز کے اسی ٹارگٹڈ اپریشن کا حصہ ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے جاری ہے جبکہ اس اپریشن کے خاطرخواہ نتائج حاصل نہ ہونے کے باعث تقریباً تمام مکتبہ فکر کے لوگوں اور حکومتی اور اپوزیشن سیاسی قائدین کی جانب سے بلاامتیاز اور بے لاگ اپریشن کا مسلسل تقاضا کیا جا رہا تھا جس کیلئے گزشتہ ماہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی کی جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کراچی کا دورہ کرکے دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کیخلاف بلاامتیاز اپریشن کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسکے باوجود کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ روز بھی ایم اے جناح روڈ پر موٹر سائیکل سواروں نے ون فائیو پولیس کی موبائل پر گولیاں برسائیں جس سے ایک اے ایس آئی اور کانسٹیبل سمیت چار افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس صورتحال میں بلاامتیاز اور بھرپور اپریشن کے بغیر کراچی کا امن واپس لوٹ سکتا ہے نہ دہشت گردوں کیخلاف اپریشن مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں رینجرز کی جانب سے کٹی پہاڑی اور ملیر سمیت پیپلزپارٹی اور اے این پی کے اکثریت والے علاقوں میں بھی اپریشن کیا جا چکا ہے اور اب نائن زیرو پر چھاپہ بھی یقیناً اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس پر سخت ردعمل یا بداعتمادی کے اظہار کے بجائے کراچی میں امن کی بحالی اور جرائم پیشہ عناصر کے قلع قمع کیلئے رینجرز کی معاونت کی جانی چاہیے۔ تاہم ایم کیو ایم متحدہ کی جانب سے رینجرز پر مسلسل عدم اعتماد کا اظہار اور فوج کے ذریعے اپریشن کا تقاضا کیا جاتا رہا۔ گزشتہ روز کی کارروائی پر بھی متحدہ کی جانب سے ایسا ہی سخت ردعمل سامنے آیا جس کی کال پر کراچی اور حیدرآباد میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا‘ ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام اور شٹرڈائون کردیئے گئے اور پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کر دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی نائن زیرو پر جمع ہونیوالے متحدہ کے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کے دوران رینجرز کے چھاپے پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا اور غیرملکی اسلحہ کمبل میں بھر کر نائن زیرو لانے اور اپنی بیوہ بہن کے گھر چھاپہ مارے کا الزام عائد کیا اور فوج کے ذریعے اپریشن کا تقاضا دہرایا جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس چھاپے میں سزائے موت اور 13 سال قید کی سزا پانے والے دو ملزمان سمیت متعدد اشتہاری ملزمان گرفتار ہوئے اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا جو رینجرز ترجمان کے بقول نیٹو فورسز کا اسلحہ ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون نے یہ کہہ کر نائن زیرو میں اس اسلحہ کی موجودگی کا اعتراف کیا کہ یہ لائسنس یافتہ اسلحہ ہے جبکہ الطاف حسین نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں یہ کہہ کر نائن زیرو میں اشتہاریوں کی موجودگی کا اعتراف کیا کہ کراچی میں دہشت گردوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے‘ اس لئے جو لوگ مختلف مقدمات میں مطلوب تھے‘ وہ خود ہی اِدھر اُدھر ہو جاتے اور اکثریت کو مصیبت میں نہ ڈالتے۔ اس صورتحال میں رینجرز نے نائن زیرو میں سزا یافتہ ملزمان اور بھاری اسلحہ کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات پر چھاپہ مارا تو یہ ایم کیو ایم کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک یا سیاسی انتقامی کارروائی نہیں جیسا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے الزام عائد کیا جارہا ہے۔ اگر الطاف حسین کے بقول کراچی میں دہشت گردوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں تو انہیں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ہر اقدام کا ساتھ دینا چاہیے مگر وہ اب بھی کراچی میں صرف فوجی اپریشن کا تقاضا کررہے ہیں حالانکہ 1992ء کے فوجی اپریشن کو آج تک نہیں بھلایا جا سکا۔ اسی تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان باور کراچکے ہیں کہ فوجی اپریشن پر بھی سب سے زیادہ اعتراض ایم کیو ایم کو ہی ہو گا۔ اگر کسی بے لاگ اپریشن سے کسی پر زد پڑیگی تو وہ اس سے خوش تو نہیں ہوگا اس لئے کڑوا گھونٹ بھر کر اور ماضی والی مصلحتوں‘ باہمی مفادات اور مجبوریوں کو بالائے طاق رکھ کر کراچی میں بے لاگ اپریشن جاری رکھنا ہو گا ورنہ اپریشن کی اب تک کی ساری ایکسرسائز بے کار جائیگی۔
اس وقت بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے نائن زیرو میں گزشتہ روز کے اپریشن کی ٹائمنگ کا سوال اٹھایا جارہا ہے جس کا مقصد اس اپریشن کو انتقامی سیاسی کارروائی کے کھاتے میں ڈلوانے کا ہے جبکہ رینجرز کے پاس نائن زیرو میں سزایافتہ ملزمان کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات تھیں تو موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں اپریشن سے گریز کرکے کیا ان ملزمان کے فرار ہونے کا انتظار کرتے۔ اگر اس کارروائی میں رینجرز کی جانب سے کوئی غیرقانونی اقدام اٹھایا گیا ہے تو متحدہ کے پاس دادرسی کیلئے مجاز عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں‘ انہیں انصاف کی عملداری پر اعتماد ہونا چاہیے مگر یہ بدقسمتی ہے کہ ایسی کسی بھی کارروائی پر نہ صرف سیاسی انتقامی کارروائی کے الزامات لگاتے ہوئے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے بلکہ مہاجر قوم پر ظلم و جبر کی باتیں کرکے علاقائی منافرت کو ہوا دینے کی بھی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ گزشتہ روز بھی الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطاب کے دوران ’’جئے مہاجر‘‘ کے مسلسل نعرے لگائے جاتے رہے اور متحدہ کے سینیٹر طاہرمشہدی نے تو یہ الزام بھی دھر دیا کہ سینٹ چیئرمین کے انتخاب کیلئے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہ دینے کی پاداش میں نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا ہے چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کو فوری طور پر اس الزام کی تردید کرنا پڑی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بھی اسی روز اپنے پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق کراچی آرہے تھے جنہوں نے کراچی‘ لاہور موٹروے کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا تاہم انکے اس دورے کو بھی نائن زیرو اپریشن کے ساتھ بریکٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے سیاسی رویوں اور اپنی صفوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کے تحفظ کی خاطر الزام تراشی کا بازار گرم کرنے کی فضا میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کوئی بھی اپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے تو گزشتہ روز کاکول اکیڈمی کے دورے کے دوران نوجوان افسروں سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ عوام کے تعاون سے ملک میں امن لاکر رہیں گے مگر سکیورٹی فورسز کی امن کی کوششوں کو سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نام دے کر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جائیگی تو ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی دلانے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔ اس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو پورے اخلاص کے ساتھ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ و لینڈ مافیاز کے تدارک کے اقدامات کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ یہ عناصر انسانی جانوں سے ہی نہیں کھیل رہے‘ ملک کی سالمیت کمزور کرنے کا بھی موجب بن رہے ہیں۔