لاہور (سید شعیب الدین سے) پاکستانی سیاست کے جادوگر آصف علی زرداری نے مفاہمت کی سیاست کی ’’جادوئی ترکیبوں‘‘ سے اپوزیشن کو اکٹھا کرکے حکومت کو چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح انہوں نے حکومت کیلئے آئندہ تین برس سینٹ میں ’’مرضی کی‘‘ قانون سازی کرنا مشکل بنا دیا۔ سینٹ کے انتخابات سے پہلے ایک موقع پر نظر آرہا تھا کہ ایم کیو ایم مرکزی حکومت میں شمولیت کی ڈیل قبول کرلے گی کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے گذشتہ دو سال سے سندھ میں ایم کیو ایم کے گورنر عشرت العباد کو تبدیل نہیں کیا اور شاید گورنر ’’برقرار‘‘ رکھنے کی یقین دہانی پر ’’معاملہ‘‘ طے پا جائے۔ مولانا فضل الرحمن مرکزی حکومت میں ’’شیئر ہولڈر‘‘ ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کیلئے ’’فیورایبل‘‘حالات کو آصف علی زرداری نے کمال ہنرمندی سے بدلا اور حکومت کے متوقع اتحادی کو ساتھ ملا کر حکومت کی تمام کوششیں ناکام بنا کر اسے چاروں شانے چت کردیا۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپنی ’’کم حیثیتی‘‘ کے باوجود سینٹ کے الیکشن کا فائدہ اٹھایا، اسکا اثرورسوخ چاروں صوبوں میں دیکھنے کو ملا جس سے پیپلز پارٹی کو پھر سے ’’فرنٹ سیٹ‘‘ پر لابٹھایا ہے۔ اب سندھ میں حالات قابو کرنے کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونیوالی تازہ مفاہمت کا ایک اظہار اسوقت بھی ہوا جب پی پی پی کی قیادت نے بالعموم اور فرحت اللہ بابر نے کھل کر ’’نائن زیرو‘‘ پر چھاپے کی مذمت کی، یہاں تک کہ ’’کھال‘‘ میں رہنے کا مشورہ بھی دیا۔ زرداری کی سینٹ میں ان کامیابیوں نے باپ اور بیٹے کے درمیان خراب تعلقات کی خبروں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سینٹ انتخابات سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ سینٹ کا الیکشن ہو یا آنیوالے بلدیاتی انتخابات پیپلز پارٹی آصف زرداری کی قیادت میں کھل کر کھیلے گی۔ پنجاب جس کے بارے میں یہ سمجھا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سیاست دفن کردی گئی ہے وہ بھرپور طمطراق سے دوبارہ واپس آئیگی۔ بلدیاتی انتخابات سے آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کو پنجاب میں گراس روٹ لیول تک مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔ منظور وٹو اور مخدوم سید احمد محمود پہلے ہی متحرک ہیں۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ حیران کن نتائج دیگی۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی اندرون سندھ پہلے ہی مضبوط ہے اور رہے گی۔