اسلام آباد(اسما غنی/نیشن رپورٹ) پاکستان کا بیس فیصد امیر طبقہ امیر ترین ہوتا جارہا ہے اور یہ طبقہ 20 فیصد غریب ترین لوگوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ وسائل استعمال کررہا ہے۔ امیر ترین اور غریب ترین افراد میں یہ فرق آمدنی اور ٹیکس کی غیر منصفانہ وصولی ہے۔ 2011-12ء میں ٹاپ ٹین فیصد اخراجات 31.3 فیصد جبکہ 40 فیصد نیچے کی طرف سے صرف 20 فیصد تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ 18 ملین امیر ترین کے اخراجات ایک طرف اور 72 ملین غریب افراد دوسری جانب ہیں۔ آکسفیم کی ایس ڈی پی آئی کے ساتھ مشترکہ رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ 2015-16ء میں حکومت کو 50 ملین غریب طبقے کے مسائل کو سامنے رکھنا ہوگا جنہیں غربت کی لکیر سے نکالنا ہوگا۔ رپورٹ کئی حوالوں سے ناانصافی کی وجوہات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں صحت‘ تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں مواقعوں کی کمی شامل ہے۔ غیر واضح پالیسیوں‘ ٹیکس کی غیر منصفانہ وصولی و ادائیگی‘ ناانصافی اور شہریوں کی عدم سکیورٹی کی وجہ سے بھی غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آر کو 60 فیصد آمدنی بالواسطہ ٹیکس کی مد میں حاصل ہوتی ہے۔ طاقتور طبقہ ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ حاصل کرتا ہے جس سے غربت پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکس کی کم وصولی کے باعث بجٹ پر دبائو پڑتا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آکسفیم کی جانب سے تجاویز دی گئی ہیں کہ مختلف شعبوں میں ناانصافیوں پر قابو پاکر غربت کو کم کیا جاسکتا ہے۔
20 فیصد امیر ترین پاکستانی عام لوگوں کی نسبت 5گنا زیادہ وسائل استعمال کرتے ہیں:آکسفیم
Mar 12, 2015