وطنِ عزیز پاکستان اللہ تعالیٰ کا ایک خاص تحفہ ہے جو برِصغیر کے مسلمانوں کو انکے اپنے علیحدہ وطن کی جدوجہد کے نتیجے میں عطا کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ہم اسکی قدر نہ کر سکے۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد سے آج تک ہم مختلف معاملات میں اختلافات اور فکری انتشار کا شکار ہیں چنانچہ سیاسی افراتفری اور حصولِ اقتدار کی کشمکش کے اس دور میں ایک بنیادی نکتہ جو بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا یہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کا تصور کیا ہے اور حقیقت میں کیا ہونا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے ہمیں اپنی تاریخ پر بھی نظر دوڑانا ہوگی جو یہ بتاتی ہے کہ یوں تو بیسویں صدی میں ایشیاء اور افریقہ کے کئی ممالک آزاد ہوئے لیکن پاکستان کی تخلیق میں ایک انفرادیت کا پہلو تھا اور وہ یہ کہ پاکستان کسی لسانی، علاقائی، نسلی یا کسی اور عصبیت کی بنیاد پر آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ اسکی اساس تمام تر مذہب پر تھی۔ اسکے قیام کا مطالبہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک نظریہ کی بنیاد پر کیا اور وہ نظریہ اسلام ہے۔ اور اسی لئے یہاں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوگی جو قیامِ پاکستان کیلئے تحریک کا محرّک بنی۔ اس بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام سیکوالرزم کی دعویدار آل انڈیا کانگرس سے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ مسلم لیگ مسلمانوں کی جماعت تھی جب مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو انکے دین و مذہب اور تہذیب و تمدن کی بنیاد پر تسلیم کرلیا گیا تو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائداعظم محمد علی جناح کا تقرر اور قائد ملت خان لیاقت علی خان کا وزیر اعظم پاکستان قرار پانا اس امر کی دلیل تھا کہ مسلمانوں کا مطالبہ انکے عقائد کی برتری پر منتج ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قانونی اثر 14 اگست 1947 کی رات 12 بجے کے بعد سے ہو چکا ہے اور اس حاکمیت کا اثر کتاب اللہ کی روشنی میں آئین سازی کے ذریعے اور حدوداللہ کے نفاذ کی صورت میں ہی قابل تسلیم ہے کیونکہ اللہ کی حاکمیت کا تصور اس کے بغیر کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ خالقِ پاکستان قیادت پر مشتمل دستور ساز اسمبلی نے 1949 میں قراردادِ مقاصد منظور کی جو مملکت کے نظام کے خدوخال بیان کرتی ہے۔ اس قرارداد کے اہم نکات یہ تھے:
-1تمام کائنات پر اقتدار اعلیٰ کی حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کو حاصل ہے کیونکہ حقیقی اقتدار کا مالک پروردگار ہے اور اس نے یہ مقدس امانت پاکستان کے عوام الناس کے سپرد اپنے خلیفہ یا نائب کی حیثیت میں کی ہے تاکہ قرآن و سنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس امانت کے مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔ -2پاکستان کا دستور قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب دیا جائیگا اور یہاں اسلامی اصولوں سے متصادم کسی قانون پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ -3اسکے علاوہ اس قرارداد میں جمہوریت کیلئے بھی زور دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان ایک جمہوری مملکت ہوگا۔ اقلیتوں کے حقوق، آئین سازی کیلئے تجاویز اور دیگر بہت سے امور پر بھی گائیڈ لائن اس قرارداد میں شامل تھی۔ یہی قرارداد مقاصد جو پہلے آئینوں میں دیباچے کے طور پر شامل رہی 1985 کی آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 2-A کی شکل میں آئین کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر موجودہ آئین کا مطالعہ کیا جائے تواس میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کے سربراہ کا مسلمان ہونا بنیادی شرط ہے اور حلف وفاداری میں اسلام کی پاسداری کا ذمہ لیا گیا ہے اس آئینی صورتحال کے ساتھ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کا ہر رکن (ماسوائے غیرمسلم ارکان) اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری کے ساتھ منتخب ہوا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ملک میں نفاذ اسلام کے حوالے سے کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی اور افراتفری کے اس دور میں ذاتی اقتدار کے حصول اور طوالت کیلئے ہر معقول اور غیر معقول طریقِ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ اقتدار کی اس کشمکش کی وجہ سے جمہوریت آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود نہیں۔ عوام مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور سودی نظام کے شکنجے میں ہیں۔ ہماری اعلیٰ اخلاقی اقدار مٹ رہی ہیں۔ بے یقینی اور ہر لحاظ سے زوال پذیر اس معاشرتی صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں اپنے نظریے کو عملاً اپنانے سے ہمیشہ گریز کیا گیا ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں اسلام کا نام صرف دکھاوے کیلئے لیا جاتا ہے۔ اسکے ذمے دار آج تک آنیوالے وہ حکمران ہیں جنہوں نے اسلام کو صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے استعمال کیا اور منصب اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک انتہائی اہم ذمے داری سمجھنے سے قاصر رہے اور ملک میں صحیح معنوں میں نفاذِ اسلام نہ کر سکے۔ اسلامی نظام کسی فرد واحد کی استبداری و جابرانہ حکومت کا حامی نہیں اس نظام میں اختیارات کا استعمال اللہ تعالیٰ کی مرضی کے عین مطابق کیا جاتا ہے حکومت عام تصور کے برعکس صرف عوام کو نہیں بلکہ اللہ کو بھی جوابدہ ہے۔ اقتدار اعلیٰ خدائے بزرگ و برتر کی ذات کو حاصل ہے اور سب عوام اسکی مرضی کے پابند ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قرارداد مقاصد کو بنیاد بنا کر آئین کی ہر شق اور ہر نافذالوقت قانون پر قرآن و سنت کی برتری کو تسلیم کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے اور آئین کی شق نمبر2-A کو باقی شقوں سے بالادست قرار دیا جائے تاکہ نہ صرف معاشرتی برائیوں کا قلع قمع ہو سکے بلکہ ایک مکمل اسلامی فلاحی ریاست کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔ قائداعظمؒ، حکیم الامت اور دیگر عالمی اسلامی شخصیات کا احیائے دین کا وہ نظریہ جس کا بیج پاکستان کی صورت میں بویا گیا اسکو پروان چڑھانے والا ہر فرد تاریخ اسلام میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
قراردادِ مقاصد ۔ حاکمیتِ اعلیٰ کا آئینی تصور
Mar 12, 2016