دنیا بھر کے مذاہب نے شراب نوشی کی سختی سے ممانعت کی ہے، افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ ہے،شراب کی خرید و فروخت غیرمسلموں کے نام پر کرنے کی اجازت دیتا ہے،ملکی آئین کے آرٹیکل 37hکے مطابق ملک بھر میںشراب پر پابندی ہے ماسوائے غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے نام پر جس پر پاکستان بھر میں بسنے والے ذی الشعور غیرمسلم شہریوں کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ ہر مذہب نہ صرف شراب نوشی کی مکمل ممانعت کرتا ہے بلکہ شراب نوشی کے معاشرے پر منفی اثرات سے بھی اپنے ماننے والوں کو خبردار کرتا ہے۔ اسلام میں تو شراب کو ام الخبائث یعنی تمام برائیوں کی ماں قرار دیتے ہوئے شراب نوشی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے ،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی جمہویہ پاکستان میں شراب کے گھناو¿نے کاروبار کو غیرمسلموں سے منسوب کردیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شراب خانوں کی سرکاری اجازت غیرمسلموں کے نام پر دینا توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے،میں بطور پارلیمنٹرین نہ صرف قومی اسمبلی میں معاشرے سے شراب کی نحوست ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی کوشش کررہا ہوں بلکہ میں نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی بذاتِ خود پیش ہوکر شراب کی غیرمسلموں کے نام پر خریدوفروخت کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے پٹیشن دائر کی ہیں۔سندھ ہائی کورٹ نے جب گزشتہ برس صوبے بھر میں شراب خانوں پر پابندی کے احکامات جاری کیے تو نہ صرف صوبے بھر میں اسکا خیرمقدم کیا گیا بلکہ معاشرے کے تمام طبقات بشمول مسلمانوں نے اس اقدام کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلانے کیلئے جاری جدوجہد میں تعاون کی یقین دہانی کرائی، ایک عرصے بعد غیرمسلموں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب انہیں شراب فروشی جیسے ذلت آمیز دھندے سے منسلک نہیں کیا جائے گا لیکن جلد ہی شراب خانوں کا طاقتور مافیا سپریم کورٹ جا پہنچا۔ سپریم کورٹ میں شراب خانوں کی دائرکردہ اپیل واپس سندھ ہائی کورٹ میں بھجواتے وقت شراب خانوں کے مالکان کا موقف سننے کی تلقین کی گئی تھی لیکن ملک بھر میں یہ خلافِ حقیقت تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے شراب خانوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی ہے، یعنی کہ سادہ الفاظ میں شراب خانوں کے مالکان کا یہ موقف مان لیا ہے کہ غیرمسلم مذاہب میں شراب نوشی کی اجازت ہے، گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ نے میری دائرکردہ پٹیشن کے جواب میں صوبے بھر میںدوبارہ شراب خانوں پر پابندی لگاتے ہوئے ایک ماہ میں میکانزم مرتب کرنے کا حکم دیا ہے
سندھ ہائی کورٹ کی حالیہ سماعت کے دوران بھی سسٹم کی اس کمزوری کی نشاندہی کی گئی کہ کوئی بھی مسلمان اپنے غیرمسلم دوست کا شناختی کارڈ دکھا کر شراب حاصل کرسکتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ دنیا بھر میںبالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں شراب نوشی کی جاتی ہے لیکن قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے جیسا کہ پبلک مقامات اورڈرائیونگ کرتے وقت تو سختی سے ممانعت ہے ،مغربی معاشروںکو بھی شراب کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے وہاںٹیمپرنس موومنٹ کے نام سے سماجی جدوجہدعرصہ طویل سے جاری ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ شراب نوشی کسی مذہب کے نام پر نہ کی جائے،پاکستان ایک اسلامی ملک ہے تو غیرمسلموں کو بھی اسلامی احکامات کے مطابق شراب نوشی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے یا پھر اگر کوئی اپنی مرضی سے شراب کے تمام تر مضمرات جانتے ہوئے بھی شراب نوشی کرتے ہوئے اپنا ٹھکانہ جہنم بنانا چاہتا ہے تو اسے غیرمسلم مذہب کا سہارا نہیں فراہم کرنا چاہیے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے یااگر حکومت کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تو پھردیگر ممالک کی طرز پر عاقل و بالغ شہریوں بشمول مسلم اور غیرمسلم کوشراب تک بلاتفریق رسائی یقینی بنائی جائے، مذہب کو ملوث کرکے خداوندِ تعالیٰ کو ناراض نہ کیا جائے۔