سابق گورنر چودھری سرورکی پہلی سیاسی کامیابی !

ارادہ یہی تھا کہ حالیہ سینٹ انتخابات کی 52 نشستوں پر لاکھوں کروڑوں روپے کے دوڑائے ’’سیاسی گھوڑوں‘‘ کے موضوع پر لکھوں جنہوں نے ووٹ کے تقدس، عوامی خواہشات اور بنیادی جمہوری حقوق کو ہی پائمال نہیں کیا ’’سیاسی منڈیوں‘‘ میں فروخت ہونے والے جوکیزکے بھاؤ میں بھی غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ کروڑوں روپے سے خریدے ان گھوڑوں کی غلاظت اور منڈی میں پھیلی گندگی دیکھنے کے بعد ہمت ہی نہیں رہی کہ ’’لفظ سینٹ‘‘ پر مزید کچھ لکھ سکوں۔ ؟ تاہم اپنے چودھری سرور کی ’’ماورائی شخصیت کا ذکر یہاں ضرورکرنا ہے جنہوں نے اپنی سیاسی ریاضت کی بدولت انتہائی کم مدت میں پاکستانی سیاست میں وہ مقام حاصل کرلیا جو بقول ’’سیاسی پنڈت ‘‘ عمراں گزرجانے کے باوجود بھی حاصل نہیں ہوتا۔؟
بحث یہ نہیں کہ چودھری سرور نے اپنی یورپی شہرت کی حامل cash +carry سے دن رات مزدوری کرکے کمائی رقم کا کتنا حصہ پاکستانی سیاست میں اپنا نام اور مقام بنانے میں ڈالا۔ ہاں یہ حیرت ضرورہے کہ کسی اوورسیز پاکستانی کا اتنی محدود مدت میں مرکز کے اعلیٰ ترین عوامی عہدے کا انتحاب لڑکر کامیابی سے ہمکنار ہونا کسی معجزہ سے قطعی کم نہیں ۔!!!
پاکستانی سیاست کے بعض پنڈت بتاتے ہیں کہ چودھری سرور کی کامیابی کے دروازے کھلنے کی ایک بڑی وجہ ان کے ’’دورگورنری‘‘ میں قائم عوامی تعلقات کی وہ وسعت تھی جو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر لڑے اس تاریّخی انتخاب میں ان کے کام آگئی…ورنہ بحرسیاست میں تو انہیں کئی برس تک غوطہ زنی کرنا باقی تھی۔؟ جہاں تک ان کی برطانوی شہریت پر اٹھائے گئے سوالات کا تعلق ہے تواس بارے میں ، میں خود ان کا بڑا نقاد ہوں کہ سیاست جب پاکستان میں کرنی ہو تو پھر برطانوی شہریت رکھنے کا جواز باقی نہیں رہتا…!!!
گلاسکو کے جس حلقے سے چودھری سروربرطانوی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے یہ حلقہ ایشیائیوں کا نہیں بلکہ سکاٹش کا تھا مگران کی ایک بڑی وجہ ان کا حلقے کے عوام سے انتہائی قریبی رابطہ عمر رسیدہ افراد کے مسائل کے مؤثرحل کے لئے کوششیں اور اپنے کاروبار میں ان کی وہ Self made شخصیت جس نے انہیں ہردلعزیز بنادیا۔ عوامی خدمت کی پہلی کسٹمر سروس کی تربیت کا آغاز بھی انہوں نے ہی کیا۔ اس تناظرمیں اگلے روز میری چودھری صاحب کے میڈیا ایڈوائزر برائے برطانیہ برادرم طاہر انعام شیخ سے جب بات ہوئی توان کا کہنا تھا۔ چودھری سرور اپنی برطانوی شہریت چھوڑچکے ہیں۔ طاہرانعام کا کہنا تھا کہ اس کا ایک بڑا ثبوت ان کا چودھری صاحب کے ہمراہ پاکستانی پاسپورٹ پر متعدد یورپی ممالک کا طویل سفر بھی ہے۔ اس طرح چودھری سرورکے دست راست بزرگوار محترم غلام ربانی کا بھی یہی کہنا تھا کہ چودھری صاحب برطانوی شہریت چھوڑچکے ہیں…!
ہماری قومی سیاست میں predctionکے عنصر کو چونکہ ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے میری پیشن گوئی کے مطابق تحریک انصاف کی اہم ترین سیٹ پر پنجاب سے منتخب ہونے والے سینیٹرچودھری سرور کی اگلی سیاسی منزل ہو سکتا ہے۔ چیف منسٹری ہو قومی اسمبلی کے بجائے انہیں اگرصوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیاجاتا ہے تو پھر ممکنات میں ہے کہ جس طرح سینٹ کی سیٹ انہوں نے اپنے نام کرلی۔ وزیراعلیٰ کی دوڑ میں بھی وہ اس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں جانتا ہوں کہ میرے بعض کرم فرما میری اس سوچ سے اتفاق نہیں کریں گے مگر ہمیں یہ بھی ہرگز بھولنا نہیں چاہیئے کہ سیاست میں کوئی شے حرف آحر نہیں ہوتی اور پھر ہماری جمہوریت میں قومی سوچ بدلنے کی دیر نہیں لگتی۔؟؟
اب اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ دیہی علاقوں میں بنیادی جمہوریت کا نظام تو متعارف کروایا جا چکا ہے مگراس نظام کو چلانے والوں کی بنیادی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں90 فیصد افراد کو سرے سے علم ہی نہیں ۔؟؟؟
دیہی آبادیوں کے بیشترلوگ اپنے گاؤں، محلے کی صفائی، کچھ گلیوں کو پکاکرنے، نالیوں اور نالوں میں گندگی سے جمع بدبودار پانی کے نکاس اور علاقے کو جانے والی کچی شاہراؤں کو پختہ کرنے کے لئے اپنی توقعات علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے سے محض اس لئے وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ’’ووٹ‘‘ دیا ہی اس لئے تھا کہ ان کے گھریا کوٹھی کے باہر پھیلی گندگی سے ان کی جان چھوٹ جائے گی ۔؟ع
اس سادگی پہ اب کون نہ مر جائے اے خدا
یہ ادارک ہی نہیں کر پاتے کہ ایم پی اے، ایم این اے کا کام گلیاں پختہ کرنا یا محلے کی نالیوں کی صفائی کروانا نہیں ان کی ذمہ داری فقط ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقوم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے جس کے استعمال کے لئے یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کو یہ ذمہ داری نبھانا ہوتی ہے۔ اب یہ سوال کہ صرف حکمران پارٹی کا چیئرمین ہی ترقیاتی فنڈز حاصل کرنے کا مجاز ہے ۔ اس لحاظ سے بھی الجھاؤ کا شکار ہے کہ ہماری جمہوریت میں علاقائی ترقی کے لئے مختص فنڈز بلاشبہ منظورنظر چیئرمینوں کو ہی دئیے جاتے ہیں۔ سیاسی تاریخ تو یہاں تک بتاتی ہے کہ حزب اختلاف کے کسی چیئرمین کو اگرفنڈز دئیے بھی جاتے ہیں تو منصوبہ کی تکمیل سے قبل ہی ان فنڈز کو محض اس لئے روک دیا جاتا ہے کہ علاقے کے عوام نے حکمران پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالے ہوتے ؟؟؟ چنانچہ ایم۔ پی۔ ایز اور ایم این ایز ان علاقوں کو دئیے گئے بجلی، گیس اور ٹیلی فون connictionکی فراہمی تک کو معطل کردیتے ہیں تاکہ حکومت کے خلاف ووٹ دینے والے ووٹر کو آئندہ کے لئے سبق سکھایا جا سکے۔ سابق گورنر اور تحریک انصاف کے رہنما سینٹرچودھری محمد سرورکو بھی اس طرح کے متعدد محاذوں پر کئی سیاسی لڑائیاں اب لڑنا ہوں گی۔ گورنر بن کر بھی انہوں نے سیاست اور اقتدار کے در و دیوار دیکھ لئے اب سینٹرمنتخب ہوئے ہیں…ایک انتہائی دشوار کن سفر کو جس کامیابی اور مختصر ترین مدت میں انہوں نے طے کیا یہ ہر اوورسیز پاکستانی کے بس کا روگ نہیں ۔ میرے خیال میں اسے ہی قسمت کا کھیل کہا گیا ہے ۔؟

ای پیپر دی نیشن