ایک عظیم و طویل جدوجہد کے بعد جس حالت و کیفیت میں ہمیں ملک سونپا گیا انگریز حکمرانوں اور اکھنڈ بھارت کے دعویداروں کی کوشش اور تمنا تھی کہ یہ لاچار کٹا پھٹا ملک چند ماہ بعد خود ہی ڈھیر ہو جائے گا۔ صد آفریں ہے ان بزرگ ہستیوں کی ہمت و استقلال پر جن کے چاروں اطراف موت تھی ناکامی و پسپائی تھی ایسے عالم میں قائد کی رحلت ان کے رفقاء کے لئے کیا قیامت خیز منظر ہو گا؟ مگر قائد کے ان سپاہیوں نے جرأت و عظمت کے وہ چراغ روشن کئے کہ نگاہ فلک دنگ رہ گئی جب آئین سازی کے مرحلہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں اور الجھنوں اور پیچیدگیوں کو بڑے تحمل اور بردباری سے عبور کرتے ہوئے 7 مارچ 1949ء کو حضرت قائد کی بنائی مملکت میں ان کے واضح کردہ نظام کی بنیاد کا آغاز ہوا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پیش کی۔ 12 مارچ 1949ء ہماری تاریخ کا وہ روشن دن ہے جب ہم نے قرارداد مقاصد کے نام سے ایک ایسی دستاویز کو آئین پاکستان کا سرچشمہ قرار دیا جو تحریک پاکستان کا اثاثہ ہے جس کے مندرجات درج ذیل ہیں۔
قرارداد مقاصد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’ہر گاہ کے اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکم مطلق ہے اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی اپنے مقرر کردہ حدود کے اندر نیابت عطا فرمائی اور یہ اختیار حکمرانی مقدس امانت ہے‘‘
’’جمہور پاکستان کی نمائندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد خود مختار مملکت پاکستان کے لئے ایک دستور مرتب کیا جائے‘‘
’’جس کی رو سے مملکت جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے جملہ اختیارات و حقوق حکمرانی استعمال کرے‘‘۔’’جس میںجمہوریت آزادی مساوات رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کو جس طرح کہ اسلام نے ان کی تشریح کی پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے‘‘
’’جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات مطابق جو قرآن و سنت نبوی میں متعین ہیں ڈھال سکیں‘‘۔’’جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں
’’جس کی رو سے وہ علاقے جو پاکستان میں شامل یا ملحق ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں شامل یا اس سے الحاق کریں گے مل کر ایک وفاقیہ بنائیں جس کی وحدتیں مقررہ حدود اربعہ متعینہ اختیارات کے تحت خود مختار ہوں۔’’جس کی رو سے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو جن میں مرتبہ مواقع کی برابری اور قانون کے روبرو معاشرتی اقتصادی اور سیاسی انصاف اور قانون اخلاق عامہ کے تحت خیال، بیان، عقیدے، ایمان، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہو جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے۔
’’جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی سلامتی، اس کی آزادی، اس کے جملہ حقوق کا، میں بر و بحر اور فضا پر حقوق اقتدار شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔
تاکہ اہل پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں اور امن عالم کے قیام اور بنی نوح انسان کی ترقی و بہبود میں کماحقہ اضافہ کر سکیں۔‘‘
قرارداد مقاصد لیاقت علی خان کے ساتھ مولانا ظفر احمد انصاری، سردار عبدالرب نشتر، مولوی تمیز الدین، مولانا ظفر علی خان کے علاوہ دیگر رہنمائوں کی شب و روز محنت کا ثمر تھا جو پاکستان کی آئین سازی میں سنگ میل اور چراغ منزل ہے۔ 12 مارچ 1949ء کو قرارداد مقاصد منظور ہونے کے فوراً بعد آئین کے بنیادی اصولوں کیلئے کمیٹی قائم کی گئی جس کے صدر مولوی تمیز الدین اور نائب صدر لیاقت علی تھے۔ اس موقع پر تبصرہ کرتے ہوئے لیاقت علی نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں قیام پاکستان کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ قرارداد میں وہ بنیادی اصول بیان کئے گئے جن پر آئین پاکستان کو استوار کرنا تھا قرارداد کے مطابق اسلام کے وضع کردہ جمہوریت مساوات آزادی اور سماجی انصاف کے اصولوں پر عمل کرنا طے پایا۔بلاشبہ قرارداد مقاصد آئین پاکستان کی روح درجہ رکھتی ہے اس پر عمل پیرا ہو کر ہی حصول مملکت کے مقاصد تک رسائی ممکن ہے تو دوسری جانب آئندہ نسلوں کو مقصد حیات سے روشناس کرایا ہے۔ یہ دستاویز احترام آدمیت کے اس زری چارٹر کا عکس ہے جو محسن انسانیت نے بنی انسان کی بھلائی کیلئے پیش کیا۔ اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے آئین پاکستان دنیا میں موجود رائج قوانین میں واحد دستور ہے جس میں حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو تحریر و تسلیم کیا گیا ہے۔بدنصیبی سے ہمارے ایوانوں میں ایسے دین بیزار اور غیر نظریاتی لوگ برجمان ہو چکے ہیں جو ریاستی وسائل سے چمگادڑ اور چکچو ندڈ کی مانند چپٹے ہوئے ہیں اور نظریاتی اساس کو چوہوں کی طرح کترتے اور دیمک کی طرح چاٹتے جا رہے ہیں۔ انہیں پاکستان کا اسلامی تشخص برداشت ہے نہ قرارداد مقاصد کی فضیلت و افادیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جہاں افواج پاکستان کو کمزور و بے بس دیکھنا چاہتے ہیں وہاں ملکی یک جہتی پر بھی ضرب و زقند لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ 8 مارچ 2011ء کو ایوان بالا کی پارلیمانی انصاف کمیٹی نے آئین پاکستان کی شک 251 جس میں اردو کو قومی زبان کے طور پر نفاذ کا حکم ہے ہدف کر کے علاقائی اور صوبائی زبانوں کو قومی زبا ن کا درجہ دینے اور انگریزی کو مزید پندرہ سال قوم پر مسلط کرنے کے بل کو ایوان بالا میں پیش کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ قبل ازیں فروری 2014ء میں حاجی عدیل نے یہی بل پیش کیا جو مسترد کیا گیا۔ پھر ماروی میمن مسلم لیگ میں شامل ہوئیں۔ اوروہی زہر گھولنے کی کوشش کی جس میں ناکام رہیں اب 8 مارچ کو یہ واردات سسی پلیجو کے ذریعے دہرائی گئی۔ قائمہ کمیٹی کے سربراہ جاوید عباسی جن کا تعلق ن لیگ سے ہے کیا انہیں صدر ممنون حسین، راجا ظفر الحق، خواجہ سعد رفیق جیسے نظریاتی مسلم لیگیوں کی تائید حاصل ہے۔ حیف ہے فنکشنل لیگ کے سینیٹر سید مظفر شاہ پر جو اس کار سیاہ میں شامل ہو کر نظریہ پاکستان کے سالار حضرت پیر صاحب پگارو شاہ مردان شاہ ثانی کی روح کے لئے اذیت بنے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف کے ان ملت بیزار افراد کا حدود اربعہ اور محل وقوع کا ملک کے نظریاتی اداروں کو گہری نظر سے جائزہ لینا ہو گا تاکہ ان کے تانے بانے اور مقاصد قوم کے سامنے لائے جا سکیں۔ یاد رہے پاکستان پٹھانوں پنجابیوں بلوچوں سندھیوں نے نہیں بنایا تھا بلکہ صرف اور صرف مسلم قومیت کی بنیاد پر بنا تھا۔ آج اس کی یکجہتی کو پاش پاش کر کے آٹھ قوموں کا مرقع ثابت کرنے والے اس سمت نما لوگوں کی مانند ہیں جنہو ں نے بہار عرب کے نام پر مشرق وسطیٰ کی ایک ایک ریاست کو تاراج و برباد کر دیا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے غیور عوام ان سیاہ بختوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ قومی زبان تحریک 14 مارچ کو پورے ملک میں احتجاج کرے گی لاہور میں شاہراہ قائداعظم اسمبلی ہال کے سامنے مظاہرہ ہو گا۔
قرارداد مقاصداور مخالف چمگادڑیں
Mar 12, 2018