کسی من جلے یا منچلے کا کیا خوب کہنا ہے کہ لوگوں کو "جوڑے" رکھنے میں مطلب کا بڑا عمل دخل ہے اور مطلب کا رشتہ اس قدر فولادی ہوتا ہے کہ کسی’’ لتھی چڑھی‘‘ کا بھی اسے کوئی خوف نہیں! جمہوریت کا رشتہ بھی کبھی مطلب اور کہیں رواجوں سے جڑا لگتا ہے، دن رات سیاستدان اپنے جمہوری رشتے سے محبت کی قسمیں کھاتے رہتے ہیں۔ ووٹ کے تقدس کی باتیں کر کے عوام کے سینے میں دھڑکتے شکستہ دل کو لبھانے کے لیے "شرک و بدعت" کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا یہ جھوٹ تو ایک ننھی سی غلطی ٹھہرا۔ سیاسی دنیا میں جھوٹ ایک فیشن ہے یا پھر مصلحت آہ! عادت بھی کہہ سکتے ہیں مگر گناہ نہیں۔ جس طرح کرگس کا جہاں اور ہے اور شاہیں کا جہاں اور ٹھیک اسی طرح اپنے ہاں ایسی رت چلی ہے کہ سیاست کا جہاں اور ہے اور حقیقت کا جہاں اور لوگوں کو لگتا ہے کہ کچھ سیاست دان کوئی دیوی دیوتا ہیں، کوئی آفاقی چیزیں ہیں لیکن اس میں سیاستدانوں کا تو کوئی قصور نہیں اس میں ہم عوام کا اپنا قصور ہے۔ ہمارے آبا نے ہمیں دیوی دیوتاؤں، فرنگیوں، راجاؤں و مہاراجاؤں ، صاحب بہادروں ، خان بہادروں، ذیلداروں، ملکوں، وڈیروں اور خانقاہوں کے اتنے قصے سنا دئیے کہ ہمیں جھوٹ سچ ہی نہیں لگتا بلکہ اس جھوٹ میں مزا بھی آتا ہے۔ پس جب ہمارے پیارے سیاستدان ہم سے جھوٹ بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں تو ہمیں مزا آتا ہے۔ جو اب جہان برہنہ کااستعارہ ہوا :ع
میں زندگی ترا اک پیرہن اتارا ہوا
اس دفعہ سینٹ کا الیکشن سہ جہتی مقابلے کا میدان بنا رہا۔ یعنی ممبران سینٹ کا انتخاب تو پنجاب میں شیر پنجاب کے پنجے اور دسترس میں رہا لیکن بلوچستان میں پانسہ پلٹ گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ شیر بھاری مینڈیٹ کے باوجود صرف تخت لاہور اور شہر اقتدار اسلام آباد تک محدود ہے۔ اس کا پھیلاؤ بلوچستان تک تھا مگر بلوچستان میں عدم دلچسپی کے سبب پہلے وہاں سے ن لیگی حکومت کا ایوان بالا کے الیکشن سے کچھ دن قبل پتا صاف ہوا پھر سینٹ کے الیکشن میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس پر دورائے سامنے آئیں: (1) اسٹیبلشمنٹ نے وہاں ن لیگ کی نہ چلنے دی۔ (2) ن لیگ کے وزیر اعلی ثنا اللہ زہری نے اپنے صوبے سے سوتیلوں سا سلوک روا رکھا جس سے ساری کیبنٹ اور کم و بیش ساری اسمبلی نالاں ہوگئی۔ پھر ایک "ہلکی پھلکی" رائے یہ بھی رہی کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا جادو چل گیا اور انہوں نے ممبران کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اپنی مرضی کا ایک نوجوان عبدالقدوس بزنجو بطور وزیر اعلٰی کے آئے لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جب پارٹی یا حکومت میں داخلی کمزوریاں ہوں تو تبھی مخالفین کے جادو چلتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی خواہش۔ گویا تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے پاکستانی سیاست میں دو گہری باتیں فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ اول، جب لوگ سیاست دانوں کے جھوٹ اور فریب سے تنگ آجائیں اکثریت کے ہاں محرومیاں کوچہ و بازار میں ناچنے لگیں اور مایوسی و اداسی دیوار پر بال کھولے بین کرنے لگے تو عوام کو جمہوریت کا خیال رہتا ہے نہ قیادت کا، جب ایسی نوبت آتی ہے پھر ہی اسٹیبلشمنٹ مجبور ہوتی ہے یا مجبور کر دی جاتی ہے اس لئے پاکستان جیسے ملک میں سب نے دیکھ لیا کہ اچھی یا بری تالی بجانے کے لیے دونوں جانب کے طبقوں کو تال میل ملانا پڑتا ہے ورنہ سسٹم یا حکومت کی گاڑی نہیں چلتی دوم، اگر سرکٹ میں واقعی جمہوریت پسند موجود ہوں اور جمہوریت کو دوام بخشنے کی ٹھان لیں تو انہیں کسی جمہوری و اصولی موقف پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔ ماضی کی میثاق جمہوریت کی مثال پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک سنہری باب تھا۔ اگر طرفین نے جمہوریت پسندی کے جذبے کے تحت اس پر عمل کیا ہوتا۔2008 تا 2013 پی پی پی نے اور 2013 تا 2018 تک ن لیگ نے میثاق جمہوریت کے طفیل اپنی اپنی آئینی مدت پوری کی۔ شاید کسی نے اسی لئے پی ٹی آئی کی ہوا باندھی ہو اور اسے قوت، جرات، الیکٹ ایبل، سلیکٹ ایبل، سوٹ ایبل اور ریسپیکٹ ایبل کے تحائف سے نوازا۔ جب بھی کسی آمریت نے جنم لیا تو جمہوریت کے بطن ہی سے لیا۔
یعنی جمہوریت پسندوں نے جونہی سیاست کاری کو فریب کاری کی پٹری پر چڑھایا جمہوریت فوراً پٹری سے اتر گئی اگر ایک جملے میں اس بات کا اخلاقی سبق بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ۔۔۔۔ سیاستدانوں ہی نے ہمیشہ اپنی "بدعملی" سے اسٹیبلشمنٹ کو تقویت دی ہے جب سیاستدان اپنی کمزوریوں کوپلیٹ میں رکھ کر بیوروکریسی، جرنیلوں اور ججوں کے حضور پیش کریں گے، تو وہ بھلا کیوں انکار کریں گے! پی پی پی کو طعنے دئیے جارہے ہیں کہ اس نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ روش چھوڑ کر گناہ کبیرہ کیا ہے۔ دوسری جانب میرے جیسے لوگ صبح، دوپہر، شام پی ٹی آئی کواسٹیبلشمنٹ کے طعنے دیتے ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ مسلم لیگ ج ق ل م یا ن وغیرہ بھی تو اسٹیبلشمنٹ کی گنگا نہا کر پوتر ہوئی تھیں، سو ابہام کہاں ہے اور کاہے کا؟؟؟ جی، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے مرتضی اور شاہنواز کس کی بھینٹ چڑھے؟ بے نظیر کو شہید کرنے والی قوتیں کیا آفاقی تھیں؟ کہاں تک ٹکراؤ کا سلسلہ بڑھایا جاتا؟ اب تو بھٹو خاندان سے اپنے ڈی این اے کا قلع قمع کرانے کے لئے بچا بھی کیا ہے؟ لے دے کر مرتضی بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی جونیئر نظر آتا ہے لیکن اس کے مشاغل کسی طور بھی بھٹو خاندان کے شایان شان نہیں۔ جمہوریت پسند نیست و نابود ہوتے جائیں گے تو جمہوریت کو خطرہ ہے ایسے ہی اگر جمہوریت پسند بے لگام گھوڑے اور بدمست ہاتھی بنتے جائیں تو بھی جمہوریت کو خطرہ ہے۔ بے لگام گھوڑے اور جمہوریت صرف خواص کو اعتماد لینے کا نام ہی نہیں عوام کو بھی اعتماد دینے کا نام ہے جب عوام کو اعتماد نہیں ملے گا تو ان کے ووٹ ہوا کے دوش پر رکھے چراغ ہیں اور ہوا بھی وہ جو جمہوریت باندھ دے! پس جمہوریت میں پرہیز علاج سے بہتر ہے۔مجھے وہ پرہیز یاد آگئی جو بی بی نے 1988 کی حکومت میں صاحبزادہ یعقوب خان کو بطور وزیر خارجہ قبول کرکے کیا تھا بعد میں جو ہوا سو ہوا۔ بی بی نے 2007 میں خود پاکستان آنے کا اور میاں نواز شریف کو بھی واپس لانے کا جو راستہ ایجاد کیا تھا وہ بھی قابل غور ہے وہ راستہ مشرف اسٹیبلشمنٹ سے حاصل کرنا ایسے ہی تھا جیسے کوئی لیڈر بند گلی پھنس گیا ہو اور دیوار سے راستہ بنالے وہ راستہ زرداری اور نواز شریف کو سیدھا شہر اقتدار اور شہباز شریف کو تخت لاہور تک لے کر گیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ، سب سچ بولیں۔ سیاست اور جمہوریت کو جھوٹ سے گندہ نہ کریں اسے سچائی کا پیرہن دیں کہ عام آدمی کا بھرم اور حیا رہے۔۔۔۔ یہی ووٹ کا تقدس ہے! میاں صاحب کو بہاولپور یوں پر بڑا ترس آیا کہ، وہ بے گھر ہیں میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے "سچ تسلیم کیا" ، آپ:
1981ء میںوزیر خزانہ پنجاب 1985 وزیر اعلیٰ پنجاب۔1988 میں وزیر اعلیٰ پنجاب،1990 وزیراعظم 1997 میں وزیراعظم۔ بھائی وزیراعلی، 2008 بھائی وزیراعلی پنجاب، 2013 وزیراعظم جبکہ بھائی وزیراعلی! سندھ والوں کی محرومیاں بھی دن رات نوحہ گر ہیں کہ نعرے سے منشور تک میں لکھا وہ روٹی کپڑے اور مکان کا جھوٹ ہائے ربا ! آہ ستم تو یہ بھی کہ نئے پاکستان میں جناب عمران کو کرپشن پسند نہیں مگر کرپٹ بہت پسند ہیں جو آئے سو بسم اللہ جی آیاں نوں۔۔۔۔ کاش جمہوریت والے اس بات پر کان دھر لیں جو سراج الحق نے کی ہے کہ اس کٹھن گھڑی میں چئیرمین سینٹ کیلئے کوئی مفاہمت اور مشترکہ روش کو جلا بخشیں تو جمہوریت کو دوام ملے گا مگر لگتا ہے کہ پریشر گروپس اور "آزاد منش" فاتح ہوں گے۔ سنا ہے امیر جماعت اسلامی نے بھی آخر مفاہمت کی بات کی ہے جو قیادت اور قیدی کا خاصا ہوا کرتی ہے۔ ذہن نشیں رہے، سینٹ کو بزرگی، سچائی، مفاہمت پسندی، غیر جذباتی کیفیت و قانون سازی ، خالص حب الوطنی اور برابری کے لئے 1973 کے آئین میں ایوان بالا کا درجہ دیا گیا بہرحال، اے ایوان بالا تیرے جلووں کی خیر!