ہمارے نظام حکومت کو پارلیمانی وفاقی نظام میں تبدیل کرنے کیلئے طویل جدوجہد کی گئی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور بطور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو 1962ء کے صدارتی نظام اور ایک فرد کے تیار کردہ دستور کے زبردست مداح تھے۔ ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اسکے نہ صرف خلاف تھیں بلکہ 1956ء کے دستور کی بحالی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ مارشل لاء کی بدولت یہ دستور تو نافذ ہوا مگر اس کو ملک کی پارلیمنٹ میں کبھی بحث کیلئے پیش نہ کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت کو متحدہ اپوزیشن کی درخواست پر جابریت اور آمریت کیخلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ۔ اس دستور کے مطابق صدر مملکت کو صرف 80 ہزار نمائندوں نے منتخب کرنا تھا۔ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے جھرلو کے ذریعہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح انتخاب ہار گئیں ملک دولخت ہونے کی ایک وجہ انکی یہ ہار بھی تھی۔ یحیٰی خان کے مارشل لاء کے بعد ایل ایف او کے تحت انتخابات ہوئے مگر ایوب خان جاتے جاتے اس بات کا عندیہ دے گئے کہ چونکہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام چاہتی ہیں اس لئے اگلے انتخابات ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر براہ راست ہوں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد صدارتی نظام ہی رہا اور عبوری دستور بھی صدارتی تھا تاہم پھر مشاورت اور شدید مطالبات کے باعث 1973ء کا دستور وفاقی پارلیمانی نظام کی بحالی کا باعث بنا۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان کو پہلی بار صوبہ کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ وفاقی پارلیمانی نظام کے تحت صوبوں کو جہاں آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں نشستوں کا فیصلہ ہوا وہاں تمام اکائیوں کے حقوق متوازن اور برابر رکھنے کیلئے دو ایوانی مقننہ بھی تجویز ہوئی تھی اور ایوان بالا میں تمام صوبوں کو یکساں حقوق اور نشستوں کا فیصلہ ہوا۔ سینٹ کو کچھ اختیارات تو دئیے گئے مگر یہ حق سینٹ کو ہی حاصل تھا کہ اگر وہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ کسی قانون کو واپس کر دے تو مشترکہ اجلاس میں ہی منظور ہو گا۔ محروم طبقات اور احساس محرومی کا شکار صوبوں کی تسلی و تشفی کیلئے یہ ابتدائی طور پر اچھا اقدام تھا، توقع تھی کہ تمام جماعتیں پارلیمانی روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سینئر، بزرگ، تجربہ کار سیاستدانوں، ماہرین تعلیم و ماہرین معیشت، قانون، خارجہ امور اور دیگر شعبہ جات میں نمایاں کردار ادا کرنے والی ملکی سطح پر تسلیم شدہ شخصیات کو اس ایوان میں رکن بننے کا استحقاق مستقل طور پر دیتی رہیں گی مگر اس قاعدے کی روح پر پوری طرح عمل کبھی نہ ہو سکا۔ انتخابی اور سیاسی خود غرضیوں نے اس ایوان کو اسکے استحقاق سے نیچے کر دیا۔برخاست اور معطل نہ ہونیوالا یہ مستقل ایوان مارشل لا کے ادوار میں عضو معطل بن گیا معطل بھی ہوا اور برخاست بھی۔ ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے مرحوم نے اسکی حیثیت کی بحالی کیلئے عدالتوں میں چارہ جوئی بھی کی مگر بے سود۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سچ بھی ظالم حکمرانوں، جابر صدور اور فوجی رہنمائوں سے پوچھ کر بولا جاتا تھا۔ جج صاحبان اپنا کردار آئینی نہیں بلکہ شخصی بنیادوں پر کیا کرتے تھے گویا آج ہمیشہ کی طرح پارلیمنٹ کی بالادستی اور آزاد غیر جانبدار عدلیہ کا تصور ناپید تھا۔
ہمارے ہاں یہ بات بھی دیکھنے کو ملی کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والی اہم اور بعض اوقات غیر اہم اور دولت مند شخصیات بھی اپنے صوبے کی بجائے کسی دوسرے صوبہ سے منتخب کروائی گئیں۔ بلاشبہ یہ صوبائی حقوق پر ڈاکہ اور غیر نمائندگی کا ایک بھونڈا طریقہ کار تھا اور اب تو اس برائی کو کافی تقویت حاصل ہو چکی ہے۔ پہلے سینٹ کیلئے ایسا ہوتا تھا اب قومی اسمبلی کیلئے بھی روایت پڑ گئی ہے اور یہ کمال پرویز مشرف اور میاں صاحب دونوں نے اسی خاتون پر یکساں کیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد سینٹ کے اختیارات میں اضافہ تو ہوا ہے مگر ابھی بھی اس میں بہت گنجائش باقی ہے۔ چیئرمین سینٹ قائم مقام صدر بنتا ہے اس لئے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور قانون سازی کو آسان کرنے اور حکومتی ارکان کو حوصلہ اور حمایت دینے، حکومت کو قانون سازی اور دیگر معاملات میں شکست سے بچانے کیلئے اور دوسری طرف حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اپوزیشن اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اس طرح جتھہ بندی کرتی ہے کہ حکومت جھکنے پر مجبور ہو جائے۔ ان دنوں یہ مراحل ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرح کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب تک سینٹ میں کوئی چیئرمین بلوچستان سے کبھی بھی منتخب نہیں ہوا جبکہ بیشتر ڈپٹی چیئرمین تو بلوچستان سے ہی خواہ وہ بلوچی تھے یا پشتون منتخب ہوتے رہے ہیں۔ چند بار پنجاب سے بھی ایسا ہوا ہے چونکہ یہ عہدہ تین سال کیلئے ہوتا ہے اس لئے ہر ممبر دو بار اس انتخاب کیلئے ووٹ دیتا ہے۔ 1985ء میں مخدوم سجاد حسین قریشی جو کہ شاہ محمود قریشی کے والد بھی تھے منتخب ہوئے پھر انکے گورنر بن جانے کے بعد ملک محمد علی خان انکے بعد سید محمد فضل آغا بلوچستان سے نگران وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ انکے بعد پہلی بار خاتون رکن نور جہاں بلوچستان سے ڈپٹی چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔ انکے بعد میر عبدالجبار بھی بلوچی تھے۔ اسی طرح نواب اکبر بگتی کے داماد ہمایوں مری جو وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ کمانڈر خلیل صوبہ کے پی کے (سرحد) سے منتخب ہوئے ان کے بعد سابق وزیر اعلیٰ جان محمد جمالی پھر صابر بلوچ اور موجودہ غفور حیدری پہلے چیئرمین سینٹ حبیب اللہ خان تھے انکے بعد سابق صدر غلام اسحاق خان، تیسرے وسیم سجاد پھر سابق گورنر میاں محمد سومرو ان کے بعد فاروق نائیک، پھر نیر بخاری اور موجود رضا ربانی۔رضا ربانی اور غلام اسحاق خان کا کردار تاریخی ہے گو زیادہ تر چیئرمین سینٹ پیپلز پارٹی ہی کے منتخب ہوئے مگر رضا ربانی کا کردار نہ صرف مدتوں یاد رہے گا بلکہ مثالی بھی رہا یہ الگ بات کہ پیپلز پارٹی کی قیادت انکے بارے میں کوئی بہت زیادہ مثبت رویہ اختیار نہیں کر رہی اور ان کے بقول وہ بینظیر بھٹو اور اپنی والدہ کی وجہ سے اس جگہ اور مقام پر پہنچے۔ رضا ربانی کی طبیعت میں ضد اور انا کا عنصر موجود ہے یہ سیاستدان میں ہونا بھی چاہئے مگر ان کی قیادت کو یہ حق حاصل نہیں کہ غیر عزت مندانہ رویہ اختیار کرے۔
تحریک انصاف کی قیادت نے غالباً پہلی بار پارلیمانی جمہوریت کا کوئی ایسا فیصلہ کیا ہے جو میز کو پلٹ دے انہوں نے موقع کی مناسبت اور اپنی عددی حیثیت کے مطابق ایسا کردار ادا کیا ہے جو غالباً انکی سیاسی زندگی اور فیصلوں کو دوام بخش سکے اور اسکے نتیجہ میں ملک کے سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کو پہلی بار چیئرمین سینٹ کا عہدہ مل سکے۔ گو ماضی میں بلوچ رہنمائوں ظفراللہ جمالی، سردار فاروق خان، آصف علی زرداری کو قومی سطح پر نہایت اہم ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع ملا مگر تینوں کے بارے میں ایک ہی رائے ہے کہ یہ تھے تو بلوچ مگر انہوں نے بلوچوں کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ ملک کیلئے بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی گم گشتہ شناخت کی تلاش کیلئے بہتیرے ہاتھ پائوں مار رہی ہے مگر منزل ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ مسلم لیگ ن جس صورتحال سے دوچار ہے اسکی ذمہ داری تحریک انصاف اور خود مسلم لیگ قیادت ہی پر ڈالی جا سکتی ہے دونوں جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا پنجاب میں ہدف تحریک انصاف ہے۔ میدان تو سج چکا ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب ہو رہا ہے مگر سرخ رنگ کے ساتھ چند اندیشے اور حقیقتیں بھی میدان ہی میں نظر آ رہی ہیں۔ سینٹ کے انتخابات کے بارے بہت سے اندیشے وسوسے پریشانیاں ہیں۔ بہت عرصہ سے سازشی تھیوری بھی سننے کو مل رہی تھی مگر ساتھ ہی یہ اطمینان بھی ہے کہ جمہوریت کے پودے یا نازک درخت پر ایک اور بہار کا موسم، بہار کا اور قرارداد پاکستان کے مہینہ میں ہی آ رہی ہے۔ قرارداد پاکستان ہر پاکستانی کو بار بار پڑھنی اور یاد کرنی چاہئے سیاستدانوں اور ذمہ داروں کو چاہئے کہ اسکی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس ارض پاک کو خزاں کے موسم میں بھی رنگ و بو کے ساتھ سجا کر رکھیں تاکہ ہم جو مثال دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے وہ زندہ ہو سکے اور ہم مزید کسی شرمندگی کا شکار نہ ہوں۔ اقربا پروری، خوشامد، تعصب، بغض، عناد، ذاتی مفاد، کرپشن ہمارے دشمن ہیں۔ ہمیں خدا ترسی، کشادہ دلی، احترام انسانیت، خوف خدا اور خدمت خلق کے راستہ پر ہی چلنا ہو گا۔