آج ارکان کی حلف برداری اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد نئی سینیٹ وجود میں آجائے گی میاں رضا ربانی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے واحد چیئرمین سینیٹ ہیں جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں ایوان بالا پر گہرے نقش چھوڑے ہیں ان سے قبل مختلف ادوار میں 6 چیئرمین سینیٹ رہے ہیں جن میں وسیم سجاد کو جہاں طویل عرصہ تک چیئرمین کے منصب پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے وہاں ان کے دور میں پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کار میں توازن برقرار رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی ان کا شمار ان پارلیمنٹیرین میں ہو تا ہے جو اپنی ’’صلح جوئی اور دھیما مزاج‘‘ رکھنے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول رہے ہیں ’’درویش صفتِ، جیالے چیئرمین میاں رضا ربانی کا تین سالہ دور گو کہ مختصر ترین دور ہے لیکن پارلیمنٹ کی تاریخ میں ان کا دور ہمیشہ یادگار رہے گا انہوں نے جہاں اپنے تین سالہ دور میں ’’سخت گیر‘‘ چیئرمین کے طور پر شہرت پائی ہے وہاں انہوں نے اعلیٰ پارلیمانی روایات قائم کر کے ایوان بالا کے وقار میں اضافہ کیا ہے وہ ایک ’’سخت گیر‘‘ چیئرمین کے طور پر جانے جاتے ہیں جو ’’سکول ہیڈ ماسٹر‘‘ کی طرح روز کا سبق روز ہی پڑھنے اور ختم کرنے کی نہ صرف تلقین کرتے ہیں بلکہ عملی طورپر ایسا کر کے دکھاتے رہے ہیں خواہ 6،6 گھنٹے تک اجلاس جاری رکھنا پڑا وہ ارکان کے صرف ٹی اے ڈی اے لینے کے حق میں نہیں تھے۔ سینیٹ کے طویل اجلاس اس کا ثبوت ہیں وہ اس وقت تک اپنی نشست سے نہ اٹھتے جب تک اجلاس کا ایجنڈا ختم نہیں ہو جاتا۔ پرائیویٹ ممبرز ڈے پر طویل ایجنڈے سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا وہ پارلیمنٹیرین کے بزنس کو نمٹانے میں کس قدر دلچسپی لیتے تھے انہوں نے ہمیشہ سینیٹ کے قواعد و ضوابط کو پیش نظر رکھ کر ایوان کی کارروائی چلائی حکومت تو ان سے اکثر ’’نالاں‘‘ ہی رہتی تھی وزراء ان کی سخت گیری کو پسند نہیں کرتے کئی بار انہوں ’’غیر حاضر‘‘ وزراء پر ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کی اپنی جماعت کے قائد حزب اختلاف کے ہاتھوں کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اپوزیشن کو ہمہ وقت خوش رکھنا ان کے لئے ممکن بھی نہیں تھا تاہم وہ ایک ایسے چیئرمین رہے جن کے لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں میں عزت و احترام کے یکساں جذبات پائے جاتے ہیں ان کو مسلم لیگ (ن) نے راجا محمد ظفر الحق کی شکل میں ایک ایسا قائد ایوان دیا جن کی شرافت اور معاملہ فہمی ان کی قوت کا باعث بنی چوہدری تنویر، جاوید عباسی، فرحت اللہ بابر، مشاہد اللہ خان، کرنل طاہر مشہدی ،میر حاصل بزنجو اور تاج حیدر جیسے ارکان کی معاونت حاصل رہی جنہوں نے انہیں ایوان کی کارروائی چلانے میں مدد دی۔ جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان چیئرمین شپ کے لئے کھینچا تانی شروع ہوئی تو میاں نواز شریف نے میاں رضا ربانی کو متفقہ چیئرمین بنانے کی تجویز پیش کر کے سب کو سرپرائز دے دیا لیکن آصف علی زرداری نے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ میاں رضا ربانی کے خلاف چارج شیٹ جاری کر دی جس میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ بحیثیت چیئرمین میاں نواز شریف کا دفاع کرتے رہے ہیں میاں رضا ربانی کو اس بات کا اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی تین سالہ چیئرمین شپ کے دوران 78 رولنگز دینے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق پارلیمنٹ کی بالادستی اور سینیٹ کے قواعد و ضوابط سے ہے وزراء اور بیوروکریسی کو اجلاس کی کارروائی میں شرکت کا پابند بنا کر ایوان بالا کے وقار میں اصافہ کیا بروقت سینیٹ اجلاس شروع کرنے کے ایوان زیریں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے سپیکر قومی اسمبلی نے ارکان کا انتظار کرنے کی بجائے بروقت اجلاس منعقد کرنے کی روایت ڈالی۔ میاں رضا ربانی کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی تین سالہ چیئرمین شپ کے دوران کبھی پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کمپر ومائز نہیںکیا ان کے اس طرز عمل سے حکومت کے لئے کئی مسائل پیدا ہوئے۔ حکومت ان سے کبھی خوش نہیں رہی لیکن انہوں نے کبھی ایوان کو آصف علی زرداری کے اشاروں پر نہیں چلا یا یہی وجہ ہے آصف علی زرداری ان سے سخت نالاں ہیں اگلے روز آصف علی زرداری نے جس حقارت سے میاں رضاربانی کو اتفاق رائے کا چیئرمین بنانے کی میاں نواز شریف کی تجویز کو مسترد کیا اس سے ان کی میاں رضا ربانی سے ’’ناراضی‘‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میاں رضا ربانی نے اپنے بارے میں آصف علی زرداری نے جو الفاظ کہے ان پر ان کی جانب سے سینیٹ کے اجلاس میں اپنے الوداعی خطاب میں بھی انتہائی محتاط الفاظ میں 12 مارچ 2018ء کو حلف نہ اٹھانے کا عندیہ دے کر جواب دے دیا۔ یہ واحد جیالا چیئرمین سینیٹ تھا جو اپنے کردار و عمل کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے قابل احترام رہا ہے ۔ ان کے جرأت مندانہ کردار سے کچھ اداروں کو شکایت تو پیدا ہوتی رہی لیکن یہ میاں رضا ربانی کو اعزاز حاصل ہے کہ ان کی دعوت پر ’’سینیٹ ان ہول کمیٹی‘‘ کے اجلاس میں پہلی بار سابق چیف جسٹس جمالی اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انہیں کھل کر بات کرنے کا موقع فراہم کیا اس اقدام سے پارلیمنٹ ،فوج اور عدلیہ کے درمیان فاصلے کم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ میاں رضا ربانی نے چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے ملاقات کرنا چاہی لیکن بوجوہ ملاقات نہ ہو سکی ۔ میاں رضا ربانی نے آصف علی زرداری کی ’’مجبوریوں‘‘ کا کبھی احساس نہیں کیا بلکہ سیاسی وفاداری اور پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر سوچا۔ وہ ایوان بالا میں جواب دینے سے گریز کرنے یا غیر حاضری پر اکثر وزراء کی سرزنش کرتے تھے بعض وزراء اور ارکان کہتے ہیں کہ ’’میاں رضا ربانی ایوان کو کلاس روم کی طرح چلاتے ہیں‘‘ لیکن پورا ایوان فخریہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کا چیئرمین کسی ’’طاقت ور‘‘ کے سامنے سر جھکانے والا نہیں یہی وجہ ہے جب سینیٹ کے آخری اجلاس میں میاں رضا ربانی خطاب کر رہے تھے پورا ایوان ہی اداس تھا پورے ایوان نے ان سے بھرپور محبت کا اظہار کیا یہ سب کچھ رسمی نہیں تھا بلکہ اپنے دلی جذبات کا اظہار تھا۔ میاں رضا ربانی نے پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مضبوط قلعہ بنا دیا ہے پارلیمنٹ میں گلی دستور اور عجائب گھر کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے انہوں نے دستوری اور جمہوری جدوجہد کو کس طرح محفوظ کیا ہے پیپلز پارٹی میں ’’حق سچ‘‘ کی بات کرنے والے اس دن سے ختم ہو رہے ہیں جب سے پارٹی کی قیادت ’’مصلحتوں‘‘ کے شکار آصف علی زرداری کے پاس آئی ہے ان کا پارٹی میں ’’سر قلم‘‘ کیا جا رہا ہے سینیٹ میں سینیٹر فرحت اللہ بابر جرأت مندانہ خطاب کے بعد آصف علی زرداری کی ترجمانی سے محروم ہو چکے ہیں۔ آصف علی زرداری نے میاں رضا ربانی سے کچھ ایسا ہی سلوک کیا ہے میاں رضا ربانی ساتویں بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں ان کی پوری پارلیمانی زندگی جمہوریت کے تحفظ کے لئے جدوجہدمیں گزری ہے۔ یہی وجہ ہے جب انہیں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ وفاقی کابینہ میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے ایسی وفاقی کابینہ کا رکن بننے سے انکا رکر دیا جس کا مسلم لیگ (ق) بھی حصہ ہو سینیٹ میںمیاں رضا ربانی نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا ہے کہ ’’فوج ایک ادارہ ہے جو ایگزیکٹو کے ماتحت کام کر رہا ہے لیکن اپنی حقیقتوں کے باعث وہ سٹیک ہولڈر ہے، اداروں کے مابین ڈائیلاگ کے حوالے سے میری رولنگ سینیٹ کی امانت ہے جو 12 مارچ 2018ء کو اگر میں نے حلف لیا اور ایوان میں ہوا تو دستاویز کی صورت میں سینیٹ کے سامنے رکھوں گا۔ امید ہے آنے والے چیئرمین میری تین اہم رولنگز کے معاملے کو دیکھیں گے، انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بات پر فخر ہو گا کہ اگر میرا نام دنیا کے ان چند سپیکروں کی فہرست میں شامل ہو سکے جنہوں نے اپنے ’’بادشاہ‘‘ کے سامنے سر تو کٹوا دیا لیکن پارلیمان کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کیا، انہوں نے چیئرمین بننے کے بعد ایوان میں اپنے اثاثے پیش کئے تھے اب انہوں نے وعدے کے مطابق منصب چھوڑنے پر دوبارہ اپنے اثاثٖے اور لائبلٹیز بھی ایوان میں پیش کر دئیے اس طرح انہوں نے ایک اچھی مثال قائم کی انہوں نے امید کا اظہار کیا ’’آنے والا چیئرمین سینیٹ 175 کے حوالے سے ڈائیلاگ کو آگے لے کر چلے گا اور مزید گفتگو سے راستہ نکلے گا‘‘ میاں رضا ربانی نے اپنے الوداعی خطاب میں ایوان کی طرف سے ملنے والی محبت پر ارکان کا شکریہ ادا کیا وہاں انہوں نے ایوان کی کارروائی چلانے کے دوران کسی رکن کی دل آزاری ہونے پر معذرت بھی کر لی۔ میاں رضا ربانی نے ’’سینیٹ کمیٹی ان ہول‘‘ کا تصور پیش کر کے عوامی مسائل زیر بحث لانے کا ایک راستہ نکالا اسی کمیٹی کے اجلاس میں چیف جسٹس اور آرمی چیف آئے۔ اس طرح اداروں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں بھی دور کرنے میں مدد ملی۔ میاں رضا ربانی کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ ترقی پسندوں کی طرح آزاد خیال ہیں لیکن میں نے ان کے اندر راسخ العقیدہ درویش صفت مسلمان ہی پایا جو نام نہاد ترقی پسندوں سے قطعاً مختلف ہے۔
میاں رضا ربانی کی ’’بادشاہوں‘‘ کے سامنے سر ’’کٹوانے کی خواہش
Mar 12, 2018