بھارت پاکستان کشیدگی اور او آئی سی

(OIC) او آئی سی اسلامی ممالک کی تنظیم ہے جس میں اسلامی ممالک کو درپیش مسائل پر بات کی جاتی ہے اور اہم عالمی مسائل پر اجتماعی موقف اپنایا جاتا ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک کے مسائل پر بات ہوتی ہے۔ اسکی وجہ غالباً یہی ہے کہ زیادہ تر عرب ممالک اسلامی ممالک ہیں مگر دنیا میں دیگر اسلامی ممالک بھی اس تنظیم کے ممبر ہیں چنانچہ انکے مسائل پر بھی گفتگو پر کوئی پابندی نہیں۔ حال ہی میں پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں او آئی سی کا اجلاس کافی زیر بحث رہا کہ حالیہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی مدعو کیا گیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے سرکاری موقف سے ممبران کو آگاہ کریں۔ اس دوران ہی بھارت پاکستان کے تعلقات میں پلوامہ کے سانحہ کی وجہ سے شدید کشیدگی پیدا ہوئی اور پاکستان نے اس اجلاس کا اس بناء پر بائیکاٹ کیا کہ بھارت کو یہ دعوت کیوں دی گئی۔ اگرچہ ممبر ممالک کے مسلم ہونے کے فوائد بہرحال پھر بھی پاکستان نے ہی سمیٹے اور کشمیر کے مسئلے پر منظور کی جانیوالی قرارداد میں بھارت کو ہی مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا مگر اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ سے سارا ذکر گول کردیا گیا۔ پاکستان جو ایک عرصہ سے اس تنظیم کا فعال ممبر ہے اس کی وزارت خارجہ اس امر پر باز پرس کے لائق ہے کہ اسکے اقدامات اس امر کو روکنے میں ناکافی ثابت ہوئے کہ اس کی مخالفت کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ یہ دعوت پاکستان کی اگر تو مرضی کیخلاف دی گئی تو پھر اس میں قصور کس کا ہے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کا ہی ہے مگر موجودہ حکومت کے وزیر خارجہ نے اس مسئلے پر جو موقف اپنایا وہ اس لحاظ سے تو درست ہے کہ بھارت نہ تو ممبر ہے اور نہ مبصر پھر یہ دعوت کیوں دی گئی۔ یہ سارا معاملہ اسلامی ممالک کی پاکستان کے ساتھ دیرینہ دوستی کے دعوئوں کی بھی قلعی کھولتا ہے مگر کشمیر پر قرار داد کی منظوری سے پاکستانی موقف پر ہی زور دیا گیا۔ اس لحاظ سے پاکستان کی اس تنظیم کے ساتھ دیرینہ وابستگی اور سالہا سال سے کشمیر کے مسئلے پر اس کے موقف کی اسلامی ممالک نے ایک طرح سے تصدیق ہی کی۔ یوں انکی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری ایک یگانگت کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ اس موقع پر جبکہ بھارتی وزیر خارجہ نے کانفرنس میں شریک ہو کر اپنا موقف دہرایا مگر اسلامی ممالک نے کثرتِ رائے سے اس موقف کے ساتھ اتفاق نہیں کیا بلکہ پاکستان کے دیرینہ موقف کے حق میں ہی ووٹ دیا۔ کشیدگی کے اس نازک مرحلے پر یہ پاکستان کی فتح ہی قرار دی جا سکتی ہے کہ دنیا کے کافی زیادہ ممالک نے اسکے موقف کو اہمیت دی جبکہ انہوں نے دوسرے ملک کا موقف بھی سُنا۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں سے کشمیر کے ذکر کا گول کیا جانا غالباً مدعو ملک کو مزید ذلیل نہ کرنے کی پالیسی ہی ہو سکتا ہے ورنہ جہاں تک کشمیر پر قرارداد کا معاملہ ہے تو سبھی معتبر اسلامی ممالک نے بھارت کو کشمیریوں پر کیے جانیوالے مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یوں پاکستان نے جہاں بائیکاٹ کا اصولی یا تکنیکی فیصلہ کیا وہاں پاکستان کی اسلامی ممالک کے ساتھ دیرینہ تعلق کے اثرات بھی سامنے آئے اور اسے بائیکاٹ کے باوجود اخلاقی فتح نصیب ہوئی۔ گزشتہ ہفتہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ پلوامہ سے شروع ہونے ولی کشیدگی نے جسے اب مودی سرکار کی انتخابی حکمتِ عملی قرار دیا جا رہا ہے۔ آخری حدوں کو چھو لیا اور دونوں ممالک ایک بڑی جنگ میں مبتلا ہونے سے بال بال بچے۔ بھارت نے ائیر اٹیک کیا اور پاکستان کی بہادر فضائی فوج نے 2 بھارتی طیارے گرا لیے بلکہ ایک کے پائلٹ کو بھی گرفتار کر لیا گیا جسے بعدازاں رہا کر کے کشیدگی کو کم کر دیا گیا۔ بھارتی پائلٹ کی گرفتاری اور رہائی پاکستان کی امن پسندی کا ثبوت بن گئی اور بھارتی فضائیہ کی متنازعہ کارکردگی بھی سامنے آ گئی جس نے مزید بھارتی اقدامات کی راہ روک دی۔ اگرچہ اب اونچی سرحدوں کو چھونے والی کشیدگی کی وہ سطح باقی نہیں رہی اور پاکستان اور بھارت نے اپنی فضائی حدود بھی تقریباً کھول دی ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس بھی چل پڑی ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مسافروں کو لانے لے جانیوالی بسیں بھی چل پڑی ہیں تاہم کنٹرول لائن پر محاذ ابھی بھی گرم ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جنگ تو عالمی امن کی کوششوں سے ٹل گئی ہے مگر دونوں ممالک کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی اور تنائو ابھی جاری رہے گا اور بھارتی الیکشن ہونے تک اس میں کمی نہیں ہو گی مگر اس ساری صورتحال میں عمران خان اچھے پلیئر کے روپ میں دوبارہ واپس آئے ہیں ا ور جنگ کو ٹالنے اور کشیدگی کو کم کرنے کیلئے انکے جرأت مندانہ اقدامات کو دنیا نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اندرون ملک بھی سبھی سیاستدانوں نے ملکی سالمیت کو ون پوائنٹ ایجنڈے کی شکل دی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہو کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اپوزیشن ا ور پاکستانی میڈیا اس لحاظ سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے کہ عالمی امن کے حوالے سے سبھی ایک پیج پر تھے۔ یہ اندازِ فکر انتہائی مثبت ہے اور اس سے دشمن ملک کو یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوئی کہ پاکستانی سیاست کے مسائل اپنی جگہ مگر جہاں معاملہ ملکی سالمیت کا ہو گا وہاں پاکستانی قوم ایک ہو گی اور اسکے علاوہ دشمن ملک کی خوش فہمی غلط فہمی میں ہی تبدیل ہوئی چنانچہ اس نے مزید ایسے اقدامات سے گریز کیا۔ اب جوں جوں دن گزریں گے بھارت کی سیاست پر اسکے حالیہ اقدامات کی پھوہار گرنی شروع ہو گئی اور کانگرس جو گزشتہ جنگوں کی ذمہ دار ہے۔ مزید کسی جنگ کی ذمہ داری لینے سے گریز کریگی۔

ای پیپر دی نیشن