ملاوٹ، بناوٹ اور لگاوٹ کرنیوالے

Mar 12, 2019

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

عمران خان نے کہا ہے کہ ملاوٹ کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ اگر عمران خان ملک سے ملاوٹ کا کام ختم کر دیں تو یہ اُن کا احسانِ عظیم ہو گا۔ اس ملک کو اتنا دشمنوں نے نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا ملاوٹ کرنے والوں نے پہنچا دیا ہے۔ آج ملاوٹ کی وجہ سے ہسپتالوں میں یہ حالت ہے کہ تِل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ہمارے تفریحی مقامات، کھیلوں کے میدان ویران پڑے ہیں۔ یُوں لگتا ہے جیسے وہاں آسیب کا سایہ ہے اور ہسپتالوں میں اس قدر رش ہے کہ سانس لینا دشوار ہے۔ یہ کسی قوم کی بربادی اور تباہی کی انتہا ہوتی ہے جب ساری قوم ہی بیمار پڑ جائے۔ ہم بچپن میں کبھی شوگر، بی پی ، کینسر ، جگر ، گردوں اور دل کی بیماریوں کا کبھی کبھار بُھولے بھٹکے سے ہی سُنتے تھے۔اب صورت یہ ہے کہ ہرگھر میں ان بیماریوں میں سے ایک بیماری موجود ہے۔ دل کے مریض آج سے تیس پینتیس سال پہلے شاید ہی پورے محلے میں کوئی ہو۔ اب تو اتنی بیماریاں نکل آئی ہیں کہ ہر شخص کی صحت مشکوک ہو گئی ہے۔ پاکستان کو جتنا بیمار مرغیوں نے کیا ہے۔ اس کی پوری دنیا میں مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ آپ 1200 روپ کا بھی بکرے کا کلو گوشت لیکر کھائیں تو دل انجانے خوف سے بھرا رہتا ہے۔ دل پرہیبت طاری رہتی ہے کہ نجانے یہ بکرے کا ہے یا کسی اور کا گوشت ہے۔ گائے کے گوشت میں تو سو فیصد ملاوٹ ہوتی ہے۔ہر ہوٹل، ریسٹورنٹ، کھانا پوائنٹس پر لوگ صبح ناشتے سے لیکر لنچ ڈنر تک باہر کرتے ہیں یا پھر بازاروں ہوٹلوں سے کھانا گھر منگوا لیا جاتا ہے۔ ان کھانوں میں سو فیصد جانوروں کی چربی کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی مشہور ریستوران سے کھانا کھا لیں، جس کا گلا حساس ہو گا، اس کا گلا دو گھنٹے بعد ہی خراب ہو جائیگا۔ پاکستان میں آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جو گوشت آپ کھا رہے ہیں وہ بکرے گائے مرغی کا اصلی گوشت ہے۔ خاص طور پر پورا ملک جو مرغیاں کھانے پر چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 22 کروڑ افراد کیلئے ہر روز 22 کروڑمرغیاں کیسے پیدا کر لی جاتی ہیں۔ آجکل مرغی ہر امیر سے امیر اور غریب سے غریب کے گھر کا آئٹم ہے۔ ہر ہوٹل میں پچیس ڈشیں مرغی سے تیار کی جاتی ہیں۔ کیا پاکستان مرغیوں میں اسقدر خودکفیل ہے کہ ہر روز انڈوں سے سالم 22 کروڑ مرغیاں نکال کر بڑی کر لے۔ ابھی پاک و ہندتنازعات کی صورت میں لین دین بند ہوا تو بھارت سے ٹماٹر آنا بند ہو گئے اور پاکستان میں ٹماٹروں کا بحران پیدا ہو گیا۔ وہ ٹماٹر جو آپ اپنے لان میں صرف ایک ماہ میں ڈھیروں پیدا کر سکتے ہیں۔ وہی ٹماٹر 200 روپے کلو مل رہے ہیں تو کیا مرغی جو ایک جاندار شے ہے جسے انڈے سے نکلنے کیلئے بھی اکیس دن چاہئیں اور ایک چوزے سے مرغی یا مرغا بننے میں کم از کم آٹھ دس ماہ درکار ہوتے ہیں۔ وہ ہر روز کیسے پیدا ہو جاتی ہے اور کروڑوں کی تعداد میں کیسے ہو جاتی ہے۔ کیا موجودہ حکومت نے اس مکروہ کاروبار کرنے والوں کو پکڑا اور سزائیں دی ہیں۔ کیا حرام گوشت کھلانے والوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا ہے۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ لاہور میں گدھے اور کتے بلیاں اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ آٹے سے میدہ چوکر نکالنے کے علاوہ آٹے میں پلاسٹک ملایا جا رہا ہے۔ بازار سے ملنے والی روٹیاں ربڑ کی مانند اسی لیے ہوتی ہیں کہ وہ ناقص آٹے سے تیار ہوتی ہیں۔ اس آٹے میں پلاسٹک کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح چینی چائے کی پتی مرچیں ، دھنیا ہلدی ہر چیز میں شدید ترین ملاوٹ ہوتی ہے۔ پاکستان کو اس حال میں کرپٹ مافیا نے پہنچایا ہے۔ جب ساری قوم بیماریوں میں مبتلا ہو تو ملک کیا خاک ترقی کریگا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ پوری قوم کے ہارمونز خراب ہو رہے ہیں۔ اگر 22 کروڑ عوام کے ٹیسٹ لیے جائیں تو معلوم ہو گا کہ 20 کروڑ عوام کسی نہ کسی سخت بیماری کا شکار ہے جبکہ 2 کروڑ عوام بھی کسی نہ کسی ہلکی پھلکی بیماری سے آشنا ہے۔ ہماری قوم اس وقت جسمانی عارضوں سے نبرد آزما ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو ادویات وہ بڑی مشکلوں سے ٹھیک ہونے کیلئے خریدتی ہے۔ اس میں بھی 70 فیصد ملاوٹ ہوتی ہے۔ اکثر ادویات ناقص اور جعلی ہوتی ہیں۔ روزمرہ اشیائے ضرورت میں ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے۔ آپ گھر بنا لیں تو اس میں استعمال ہونیوالی سو کی سو اشیاء میں ملاوٹ ہے۔ حد یہ ہے کہ اب دال چاول سبزی بھی ملاوٹ سے پاک نہیں۔ گندے پانی، گندی کھادوں اور گندے مُضر کیمیکلزکے چھڑکائو سے آدمی اب دال چاول یا سبزی پر بھی گزارہ نہیں کر سکتا۔ ہماری ہوا تک میں آلودگی ہے جب ہمارے معدوں میں ملاوٹ زدہ اور زہریلی اشیاء داخل ہونگی تو لامحالہ دل گردے پھیپھڑے جگر سب کچھ خراب ہو گا۔ خوراک اور فضا دونوں کے اثرات انسانی زندگیوں پر ہوتے ہیں۔ ہر وقت زہریلی اشیاء کھانے اور گرد آلود ماحول میں رہنے سے انسان میں پراگندگی کا انتشار اضطراب جنم لیتا ہے۔ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس پر اسی طرح کے اثرات آتے ہیں۔ ملاوٹ ہماری قوم کے رویوں میں بھی آ گئی ہے۔اس ملاوٹ نے پوری قوم کا مورال تباہ کر دیا ہے۔ پوری قوم ملاوٹ ، بناوٹ اور لگاوٹ کی عادی ہو گئی ہے۔ سچائی، ایمانداری اور خلوص ماتم کناں ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ ملاوٹ کرنے پر سخت سے سخت سزائیں دیں۔ ملاوٹ گوشت یا دودھ ہو، سیمنٹ یا لوہے میں ہو،کردار یا روپے میں ہو، اس کی سزا پھانسی یا قید بامشقت ہو۔ ملاوٹ، بناوٹ اور لگاوٹ پر جب تک سخت اور فوری سزائیں نہیں ملیں گی۔ یہ قوم کبھی نہیں سُدھرے گی۔

مزیدخبریں