قرآن و احادیث میں سچ کی برکات اور جھوٹ کے مضمرات سے واضح طور پر آگاہ کیا گیا ہے۔ سورہ المائدہ میں صادقین کو روزقیامت صدق کی وجہ سے جنت ملنے کا تذکرہ موجود ہے ’’ آج (قیامت)کے دن صادقین کو ان کا صدق نفع اور فائدہ دے گا ،ان کیلئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ اس خلد بریں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔۔‘‘ سورہ الحجرات اور سورہ الحشرمیں بھی صادقین کا ذکر ہے۔ دونوں آیات مبارکہ کا مشترکہ طور پرخلاصہ یہ نکلتا ہے کہ صادقین وہ ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، دین اسلام پر شکوک و شبہات نہ کرے ، اپنی جان و مال کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سرانجام دے ، اللہ کی رضااور خوشنودی کے حصول کیلئے کام کرے اور جب کبھی وقت پڑے تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کیلئے ہر طرح کی ممکن نصرت و کوشش کرے۔ فرامین اللہ رب العزت کی طرح ارشادات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صدق کے بہت سے فضائل و مناقب مذکور ہیں۔اسے دل کا اطمینان ، دنیوی و اخروی نجات کا وسیلہ ، حصول جنت کا سبب ، خدا کی خوشنودی و رضا کا باعث ، مال میں برکت اور خیر کا ذریعہ جبکہ شرمندگی ، ندامت ، پچھتاوے ،ہلاکت اور جہنم سے بچائو کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدق ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ’’ صدیق‘‘ بن جاتا ہے، اور جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور بے شک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کوئی ایسا عمل بتلائیں جس کی وجہ سے جنت مل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق۔ کیونکہ صدق کو اختیار کرنیوالا شخص نیک ہے اور نیکی کرنیوالا پرامن ہے اور پرامن رہنے والا جنت میں داخل ہوگا۔ اس شخص نے پوچھا کہ یارسول اللہ !ایسے عمل کی نشان دہی بھی فرما دیں جس کی وجہ سے انسان مستحقِ دوزخ بنتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جھوٹ۔ کیونکہ جھوٹا شخص گناہگار ہے اور گناہ کرنے والا نافرمان ہے اور نافرمانی کرنیوالا جہنم جائیگا(مجمع الزوائد و منبع الفوائد)ایک حدیث پاک میں ہے کہ جھوٹ بولنا رزق کو کم کردینا ہے۔ایک مرتبہ سرکار دوعالمؐ سے پوچھا گیا کہ کیا مسلمان بزدل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ہو سکتا ہے۔ پھر پوچھا گیا کہ کیا وہ بخیل ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ہو سکتا ہے۔ پھر پوچھا گیا کہ کیا وہ جھوٹا ہوسکتا ہے؟ اس پر آپکے چہرے کی رنگت میں تغیر آگیااور فرمایا: نہیں، مسلمان جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل تباہ کر کے رکھ دیاہے۔ تمام گواہوں کو خبر ہو جائے اگر بیان کاکچھ حصہ جھوٹا ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔ آج سے سچ کے سفر کا آغازکرتے ہیں‘ جھوٹ چلتا رہاتو نظام عدل نہیں چل سکتا۔چیف جسٹس پاکستان نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے والا ہے۔ نظام عدل گواہی پر کھڑا ہے اور جھوٹی گواہی کی سزا عمر قید ہے ہم کسی کو جھوٹ بولنے کا لائسنس نہیں دے سکتے۔ محترم آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان نے نظام عدل کی بربادی کی جڑ کی نشاندہی کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس پاکستان کے عزم کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ قومیں تب عظیم بنتی ہیں جب انکی اقدار اعلیٰ ہوں۔ ریاست مدینہ کی بنیاد سچ پر رکھی گئی تھی۔ جھوٹی گواہیوں کیخلاف عدلیہ کے اقدامات سے مکمل تعاون کیا جائیگا۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں نظام کو شفاف اور منصفانہ بنانے کا عہد کر لیں تو فوری اور سستے انصاف کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ عوام پر امید ہیں کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت کے اقدامات صرف بیانات کی حد تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عدالتی اصلاحات کو ترجیح دیکر تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں انصاف کی حکمرانی کو یقینی بنائے گی۔ چیف جسٹس پاکستان پرُخلوص اور نیک نیت شخص ہیں عوام کو یقین ہے کہ وہ اپنے مقدس مشن میں میں کامیاب ہونگے۔معاشرے اور عدالتوں میں اس قدر جھوٹ بولا جاتا ہے جس سے حقیقت واضح ہونے کے بجائے دب جاتی ہے۔ بے قصور سزا پاتے اور مجرم بری ہو جاتے ہیں۔ عدالتوں کیلئے بعض اوقات سچ سامنے لانا ممکن نہیں رہتاتھا۔ حلف اْٹھا کر بھی مدعی ملزم اور گواہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسے کیسوں کے خاتمے میں جھوٹ بولنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ضروری ہے جس کے تحت جھوٹی گواہی پر عمر قید کی سزا مقرر ہے۔ کیسز کی تعداد اور طوالت دیکھتے ہوئے جھوٹے مقدمات میں اس سزا کا اطلاق بھی وقت کا تقاضا ہے۔
جس طرح چیف جسٹس پاکستان سچ کی کارفرمائی کیلئے کوشاں اورحکومت انکے شانہ بشانہ ہے اس سے یقین کی حد تک امید ہے کہ سچ کے پھول اپنے جوبن پر کھِل کر اور سچ کے رنگ کھُل سامنے آئینگے جس سے معاشرہ میں انصاف کا دور دورہ ہوگاجس معاشرے میں انصاف نہ ہووہ ظلم کا معاشرہ کہلاتاہے۔