مجھے ملتان میں ڈاکٹر انواراحمد پسند ہے۔ مگر اسکی شخصیت میں ناپسند کرنے والی باتیں بھی بہت ہیں۔ وہ احساس برتری کا شکار ہے اور یہ احساس کمتری سے آگے کی خصوصیت ہے۔ وہ نمایاں ہونے کے چکر میں رہتاہے جبکہ وہ نمایاں آدمی ہے۔ وہ تخلیقی آدمی بھی ہے۔ وہ صورتحال کو مزاحیہ بنانے کے چکر میں رہتا ہے اور ضرورت سے بہت زیادہ بے تکلفی میں دوستوںکو خفا کرتا ہے۔ میں نے ذلیل و خوار کرنے کی بات نہیںکی۔ ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔
اگر کوئی ایسی ناپسندیدہ صورتحال میں بھی نارمل رہتاہے تو پھر ٹھیک ہے۔ کچھ برداشت کر لیتے ہیں۔ میں ملتان میں کچھ عرصہ رہا ہوں۔ میں نے بھی دوستوں کو ذلیل کرنے کی عادت کے باوجود اسے برداشت کیا ۔ میرے ساتھ ملتان میں ایک میٹنگ تھی ۔ ڈاکٹر انواراحمد نے میرے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی۔ پروفیسر اے بی اشرف صدر محفل تھے۔ جب کوئی منفی کوشش اپنی بڑائی اور اپنی پسندیدگی کے لیے کرتا ہے تو اچھا نہیں لگتا۔ میں نے بھی ڈاکٹر انوار احمد کی ’’خدمت‘‘ کر دی۔ لوگ بڑے خوش ہیں۔ بالخصوص ایک ممتاز شاعرہ نوشی گیلانی بڑی خوش ہوئی ۔ ڈاکٹر انواراحمد نے اس کے ساتھ بھی ایک موقعے پر کچھ زیادہ ہی بے تکلفی کر دی تھی۔
نجانے کیوں مجھے آج برادرم ڈاکٹر انوار احمد یاد آ گئے۔ میں اس کے برجستہ اور دل گرفتہ لہجے کا قائل ہوں۔ کبھی کبھی اس کا دوستانہ جملہ مزا بھی دیتا ہے مگر وہ تھوڑی سی احتیاط کر لیا کریں تو بہتر ہو گا۔ ان کا ایک مرتبہ ہے۔ وہ دوسروں کے لیے اب ایک مینارۂ نور بن سکتے ہیں۔ دوستوں اور جونیئر لوگوں کی سرپرستی بھی کرنا چاہئے اور انہیں تسلیم بھی کرنا چاہئے۔ صرف اپنے آپ کو ماننا ہی کافی نہیں ہے۔
پاکستان کی بہو شعیب ملک کی اہلیہ بھارتی سٹار ثانیہ مرزا نے اپنے ہارے ہوئے اور پاکستان کے معترف اورمداح بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو اپنا حقیقی ہیرو قرار دیا ہے۔ پہلے تو وہ یہ بتائیں کہ غیر حقیقی ہیرو کیا ہوتا ہے‘ کون ہوتاہے۔ ثانیہ مرزا کے حقیقی ہیرو بھارتی پائلٹ نے اپنا ہی طیارہ مار گرایا۔ اس نے یہ کارنامہ پاکستان کے علاقے میں سرانجام دیا ہے اور اپنی گرفتاری پیش کر دی اوراپنی بہت خدمت پاکستان میں عظیم پاک فوج کے ہاتھوں کرائی۔ اس نے خوب کھایا پیا۔ یہ بات ہم اپنے کرکٹر ثانیہ مرزا کے حقیقی شوہر شعیب ملک سے پوچھیں گے کہ ثانیہ مرزا پاکستان کی حقیقی بہو ہے؟ ہمارے ہاں بہوئیں اس طرح کی غیر ضروری بات نہیں کرتیں۔ ثانیہ کو اس طرح کے بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ہمارے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی بیرونی دبائو کا نتیجہ ہے۔ لوگ امریکہ وغیرہ کا نام لیتے ہیں مگر بظاہر صرف بھارتی خاتون سٹار ثاینہ مرزا ہی نظر آتی ہیں۔ شاید یہ سوچا گیا ہے کہ پاکستان کی بہو کہیں ناراض ہو کر روٹھ نہ جائے۔ لڑکیاں روٹھ کے اپنے ہی گھر جاتی ہیں۔ ثانیہ کا گھر تو بھارت میں ہے۔ سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا جلدی میں فیصلہ ٹھیک نہیں ہے جبکہ اس اقدام پر عمران خان کو نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ثانیہ مرزا کوبھی نوبل پرائز کے لیے نامزدکیا جائے ۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہونے کے امکانات ہیں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت میں تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے یا کوئی گڑ بڑ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ البتہ اخبار نے یہ بات درست کہی ہے کہ دونوں ملکوں میں مسئلہ کشمیر ایک سبب ہو سکتا ہے۔ امریکہ صرف پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف ہے۔ پاکستان کیلئے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کیلئے بھی امریکہ نے بہت زور لگایا تھا جبکہ بھارت کیلئے کوئی بات نہ کی تھی۔ نوازشریف کو بہت بڑی رشوت دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا مگر نوازشریف نے دھماکے کئے۔ یہ ایک کارنامہ ہے۔ نوازشریف بڑی شش و پنج میں تھے۔ مرشد و محبوب مجید نظامی نے نوازشریف کو پیغام بھیجا دھماکے کر دو ورنہ قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی۔
اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے بہترین اور بڑھ کر ہیں۔ اس کیلئے ہمیں چین کا بھی شکرگزار رہنا چاہئے۔ امریکہ اس طرح کی صورتحال میں یہ آرزو رکھتا ہے کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہوں۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کیلئے یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کو اس طاقت سے محروم کیا جائے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی چپقلش کے پیچھے یہ خواہش اور سازش موجود ہوتی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں ہمیں کسی کمزوری اور مصلحت سے گریز کرنا چاہئے ورنہ لوگ بھارت کیلئے اتنے سیخ پا ہیں کہ ہمارے ایک وزیراعظم کی طرف سے کی گئی سیاسی باتیں جو بھارت کیلئے کی گئی تھیں‘ یہ نعرہ وجود میں آیا تھا؎
مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے غدار ہے
بھارتی پائلٹ کو دوسرے دن واپس بھیجنے کی بات کی عالمی سطح پر تعریف ہوئی مگر ابھی تک بھارت کی طرف سے شکریے کا کوئی تاثر بھی سامنے نہیں آیا بلکہ سرحد پر بھارت کی طرف سے کارروائیاں ہوئی ہیں اور جو ہماری فوج کے ساتھ جھڑپیں شروع کر دی گئی ہیں۔ چونڈہ سے ایک ممتاز قانون دان شعروادب سے گہری وابستگی رکھنے والی خاتون شکیلہ جبیں نے بتایا کہ یہاں کوئی فوجی کارروائی ہمارے گائوں کیلئے سامنے بھی آتی۔ البتہ یہ اس نے بتایا کہ پلوامہ میں مرنے والے اکثر لوگ شودر تھے اور یہ ساری پلاننگ بھارت نے کی تھی جس کیلئے مودی اپنی انتخابی مہم میں فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ابھی تک نہ آرزو اور ارادہ اس کے دل میں تڑپ رہا ہے۔ یہ بھی ایک افواہ ہے کہ بھارتی پائلٹ کو سعودیہ نے رہا کروایا ہے۔
ملتان سے چونڈہ بھارتی سرحد تک
Mar 12, 2019