برطانیہ میں مقیم ایک صحافی دوست نے اتوار کے سہ پہر ایک Whatsapp پیغام بھیجا۔ سنسنی خبر اس میں یہ تھی کہ ہالینڈ کی ایک صحافی Bette Damنے برسوں کی تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی ہے۔ عنوان اس کا ہے "Searching for an Enemy"۔اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن ابھی شائع نہیں ہوا ہے۔ اس کتاب میں موجود چند حیران کن تفصیلات کو مگر ’’گارڈین‘‘ اور ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ کو چھاپنے کی اجازت مل گئی ۔
شائع شدہ مواد میں حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ تحریک طالبان کا بانی ملا عمر نائن الیون کی وجہ سے طیش میں ہوئے امریکی حملے کے بعد ایک لمحے کو بھی اپنے ملک سے فرار نہیں ہوا۔ طالبان کی حکومت گرائے جانے کے بعد بھی وہ مسلسل بارہ برس تک اپنے آبائی صوبے زابل ہی کے دو قصباتی گھروں میں موجود رہا۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ اس کے دونوں ٹھکانے امریکہ کے فوجی اڈوں سے محض چند میل کی مسافت پر تھے۔ سینکڑوں فوجیوں، مخبروں اور ڈرون طیاروں کے ہوتے ہوئے بھی امریکی مگر ملاعمر کا پتہ نہ لگا پائے۔ اگرچہ دو بار ان گھروں کی ’’تلاشی‘‘ بھی ہوئی جہاں وہ مقیم تھا۔ یہ خبر دیکھتے ہی سچی بات ہے میرے ذہن میں مئی 2011کی یاد آگئی۔ اس ماہ کے آغاز میں ایبٹ آباد میں واقع ایک گھر پر امریکی فوجیوں نے طیاروں کے ذریعے پہنچ کر دھاوا مارا اوراسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔اسامہ آپریشن کے ایام میں ابھی تک میں کاملاََ گوشہ نشین نہیں ہواتھا۔ گاہے سفارتی تقاریب میں چلاجاتا تھا۔ وہاں موجود گورے سفارت کارخاص طورپر امریکی مجھے گھیرے میں لے کر اسامہ کے حوالے سے طنزیہ سوالات اٹھانا شروع ہوجاتے۔ تواتر سے اس حقیقت کا ذکر ہوتا کہ اسامہ کا ٹھکانہ کاکول اکیڈیمی کے بہت قریب تھا۔ ہمارے عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کو اس کی سن گن تک نہ ملی۔ لہذا ثابت ہوا کہ …مجھے سفارت کاری کا ہنر نہیں آتا۔ ’’حساس‘‘ معلومات تک رسائی بھی حاصل نہیں۔ عام پاکستانی ہوتے ہوئے مگر ان کے اٹھائے سوالات سے شرمندہ ہوجاتا۔ جلدی میں گھڑے چند دلائل کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کرتا کہ امریکہ کی افغانستان پر مسلط War on Terrorکے دوران ہماری دوریاستوں میں جو قربت تھی اس کے ہوتے ہوئے پاکستان اسامہ کا مبینہ ’’سہولت کار‘‘ ہونے کا رسک لے ہی نہیں سکتا تھا۔میری ایمان دارانہ رائے کو طنز بھری مسکراہٹ سے رد کرتے ہوئے شائستہ انداز میں میری تضحیک کی کوشش ہوتی۔ ایک سفارت کار نے کسی محفل میں یہ تک کہہ ڈالا کہ اسے مجھ ایسے ’’آزاد‘‘صحافی سے ’’حکومتی دفاع اور ترجمانی‘‘ کی امید نہ تھی۔ ملاعمر کے بارے میں شائع ہوئی تازہ ترین معلومات جاننے کے بعد دل میں یہ خواہش مچل رہی ہے کہ جلد ہی کوئی سفارتی تقریب منعقد ہو۔ مجھے وہاں مدعو کیا جائے۔میں وہاں پہنچتے ہی یورپی اور امریکی سفارت کاروں کو ڈھونڈ کر اپنا تعارف کروائوںاورچھوٹتے ہی سوال اٹھائوں کہ خواتین و حضرات ملاعمر کے بارے میں شائع ہوئے انکشافات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔گوشہ نشینی اختیار کرنے کے باوجود میرے ہاں چند سفارتی تقاریب کے دعوت نامے ان دنوں بھی کبھی کبھار آجاتے ہیں۔ مارچ 13اور 15کو اسلام آباد میں دو اہم تقاریب ہیں۔میری بدقسمتی کہ شہر میں نہ ہونے کی وجہ سے ان میں شمولیت نہ کر پائوں گا۔ دل میں جو طنزیہ سوالات مچل رہے ہیں انہیں ’’حقدار‘‘ تک پہنچانہیںپائوں گا۔ملاعمر کے بارے میں تازہ ترین انکشافات پڑھنے کے بعد بہت اشتیاق سے امریکی میڈیا کو مانیٹر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ کالم لکھنے تک ملاعمر کے بارے میں ہوئے تازہ ترین انکشافات کے بارے میں وہاں سرکاری سطح پر ایک فلم کے ڈائیلاگ والا ’’سناٹا‘‘ طاری تھا۔ڈچ صحافی کے دعوے کو جھٹلانا نظر بظاہر کافی دشوار ہے۔ اس نے افغان حکومت کی اجازت سے کابل کے ایک ’’سیف ہائوس‘‘ میں محصور ہوئے جبارعمیری سے طویل ملاقات کے بعد ملاعمر کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔جبار عمیری طالبان دور میں ایک صوبے کا گورنر تھا۔ امریکی حملے کے بعد وہ روپوش ہوکر ملاعمر سے رابطے میں آیا اور ملاعمر کی اپریل 2013میں ہوئی وفات تک اس کی پناہ کا بندوبست کرتا رہا۔ ڈچ صحافی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملاعمر کے آخری تین سالوں میں وہ واحد شخص تھا جو طالبان کے بانی وامیر سے رابطے میں تھا۔ طالبان تحریک کے اہم ترین عہدیدار بھی فقط اس کی وساطت سے اپنے امیر کے ساتھ پیغامات کے تبادلے کرتے تھے۔جبار عمیری کی بتائی باتوں کو ڈچ صحافی نے من وعن بیان نہیں کردیا۔اس کی باتوں کی تصدیق کے لئے اس نے بے شمار لوگوں سے ان علاقوں میں بھی جاکر ملاقاتیں کیں جو طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ اپنی تحقیق سے حاصل شدہ معلومات کو اس نے امریکی اور افغان حکام سے ان کی رائے جاننے کے لئے Shareکیا۔ یہ بات عیاں ہے کہ اس کی تحقیق کی بدولت ابھرے حقائق کو جھٹلانے کے ٹھوس شواہد میسر نہیں تھے۔ اسی
باعث کئی برس انتظار کے بعد بالآخر وہ اپنی تحقیق کو منظر عام پر لانے کو مائل ہوئی۔ملاعمرکے بارے میں ہوئے تازہ ترین انکشافات کے بارے میں مزید لکھنے سے قبل ڈچ صحافی کی کتاب کے انگریزی ترجمے کی اشاعت کا انتظار کرنا ہوگا۔فی الوقت اگرچہ یہ بات بہت اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہBette Damکی کتاب نے سی آئی اے کی ساکھ کو بہت دھچکا پہنچایا ہے۔ملاعمر کی گرفتاری کے لئے امریکہ نے مدد پہنچانے والے کے لئے گراں قدر انعام کا اعلان کررکھا تھا۔ اسامہ بن لادن کے بعد ’’مطلوبہ‘‘ افراد کی فہرست میں وہ نمایاں ترین تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ دوسروں کو گراںقدر انعامات کے ذریعے ملاعمر کی تلاش پر اُکساتی امریکی فوج اور ایجنسیاں زابل میں موجود دو ایسے اڈوں سے فقط چند میل کے فاصلے پر رہتے شخص کو برسرزمین مخبروں (جسے Hum-Intelکہا جاتا ہے)کی بے تحاشہ تعداد اور ٹیکنیکی ذرائع سے معلومات حاصل کرنے والے جدید ترین آلات کے ہوتے ہوئے بھی ڈھونڈنہ پائیں۔ملاعمر کے بارے میں ہوئے تازہ ترین انکشافات پڑھتے ہوئے اپنا پیاراٹرمپ بھی بہت یاد آیا۔ چند ہفتے قبل ہی اس نے ٹی وی کیمروں کے سامنے امریکی انٹیلی جنس حکام کو بہت رعونت اور کافی حقارت سے یہ ’’مشورہ‘‘ دیا تھا کہ وہ اپنے پیشے کی مبادیات کو سمجھنے کے لئے سکولوں میں دوبارہ داخل ہوکر کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔دیکھتے ہیں ڈچ صحافی کی کتاب چھپنے کے بعد سی آئی اے کے کتنے لوگوں کو نوکریوں سے ہٹاکر ’’سکولوں‘‘ میں داخل کروایا جاتا ہے۔
ملا عمرکے بارے میں تازہ انکشافات
Mar 12, 2019