افغانستان میں اصلی صدر کون؟

Mar 12, 2020

حفیظ الرحمن قریشی

شیخ سعدیؒ کا تصوف اور تاریخ کے مطالعہ کا حاصل یہ ہے کہ ایک کمبل میں دس درویش سو سکتے ہیں مگر ایک ملک میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے، لیکن افغانستان میں اس سے بالکل اُلٹ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ افغانستان میں گزشتہ ستمبر میں عام انتخابات ہوئے تو الیکٹورل کمشن کے مطابق سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی جیت گئے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور کابل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں جب امریکہ نے قبائلی پس منظر کو نظرانداز کرتے ہوئے طالبان کی عوام میں حمایت کو زک پہنچانے کیلئے افغانستان کیلئے جمہوریت کا ٹیکہ تجویز کیا تو انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی کے مدِمقابل اور بعض قبائل میں زبردست اثر و رسوخ رکھنے والے سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کو بھی معقول ووٹ پڑے۔ اپنی اس پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے موصوف نے پھڈا ڈال دیا کہ وہ اشرف غنی سے زیادہ صدارت کے مستحق ہیں۔ قریب تھا کہ دہشتگردی کے عذاب کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا عذاب بھی نازل ہو جاتا، امریکہ نے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے صدارت کے دونوں امیدواروں میں اختیارات کی تقسیم کا فارمولا پیش کر کے خانہ جنگی کا خطرہ ٹال دیا مگر یہ نظام، افغان عوام کا کوئی بھلا نہ کر سکا۔ سوائے اسکے کہ افغانستان خونریزی سے بچ گیا اور امریکہ کو پٹھو حکمران مل گئے۔ اگلے پانچ برس تینوں فریقوں ، امریکہ ، ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے پرامن بقائے باہمی کے سائے تلے نسبتاً پرامن گزار لیے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں حضرات اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ بھارتی حکمرانوں سے زیادہ بھارت نواز نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پانچ برسوں میں بھارت نے اقتدار کی اس بندر بانٹ میں سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ اس فکر میں مبتلا ہیں کہ ایران کے سوا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک انتخابات اور جمہوریت سے محروم ہیں لیکن اُنہوں نے کبھی اس نکتے پر غور نہیں کیا کہ قبائل پر مشتمل معاشروں میں روایتی جمہوریت نہیں پنپ سکتی بلکہ جمہوریت کا پودا جڑ ہی نہیں پکڑ سکتا۔ متحدہ عرب امارات ، سلطنتِ مسقط و عمان، کویت ، سعودیہ ، یمن ،اُردن، لیبیا ، چاڈ، سوڈان، صومالیہ اور کئی دوسرے ملکوں کی آبادی قبائل پر مشتمل ہے۔ نسلی برتری قبائل کی گھٹی میں پڑی ہے۔ کسی دوسرے قبیلے کے کسی فرد کی حکمرانی تو کجا، اُسکے گھوڑے کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے۔ جنگیں چھڑ جاتی ہیں۔ مزید تفصیل جاننا ہو تو مولانا الطاف حسین حالی کی شہرہ آفاق نظم ’’مدوجزر اسلام‘‘ جو مسدس حالی کے نام سے زیادہ مشہور ہے ، مفید رہے گی۔ پھر ان ممالک میں مسالک کا اختلاف بھی جمہوریت کی جڑیں نہیں لگنے دیتا۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے یہاں دونوں برائیاں موجود ہیں۔ خود پاکستان کے مغربی علاقوں میں قبائلی نظام کا بھی یہی حال ہے ، آپ اس کا اندازہ، پشتون تحفظ موومنٹ کے اُن دو رہنمائوں کے رویے سے دیکھ سکتے ہیں جو ان دنوں افغانستان گئے ہوئے ہیں۔
انگریزوں نے اس علاقے پر حکومت قائم رکھنے کیلئے بندوق کے ساتھ ساتھ زر کو برابر برابر استعمال کرنے کی حکمت عملی استعمال کی۔ خواتین کی ایک جماعت پیدا کر دی ، جس نے اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ انگریز بہادر کی حکومت رحمت الٰہی (نعوذ بااللہ) ہے۔ پاکستان بنا تو قبائلیوں کے بعض زعماء گاندھی اور نہروکو قائد اعظم اور لیاقت علی خاں سے زیادہ ’’پکا مسلمان‘‘ باور کراتے رہے۔ یہ تو قائد اعظم کی فراست تھی ، جس نے قبائلیوں کو اپنے زعماء کی گمراہ کن فکر سے آزاد کرایا۔ پاکستان کی اس پالیسی کی بدولت ، قبائلی حب الوطنی میں وطن کے دوسرے شہریوں سے کم نہیں۔ آمدم برسرِ مطلب، قبائل میں بٹے افغانستان میں جمہوریت کی کاشت بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی ایسے عالم فاضل اور عبداللہ عبداللہ ایسے پڑھے لکھے افراد کے طرز عمل سے عام افغانوں کے رویے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مصر اور لیبیا میں بادشاہتیں بعد میں آنیوالی جمال عبدالناصر اور معمر قذافی کی آمریتوں سے کہیں اچھی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد شام نے فرانس سے آزادی حاصل کی تو جمہوریت قائم ہوئی ، شام میں 80 فیصد سنی 15 فیصد علوی شیعہ مسلمان اور پانچ فیصد عیسائی ہیں۔ شام میں جمہوریت بہت اچھی جا رہی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ علوی، حافظ الاسد، بلاتعصب شامی فوج کے کمانڈر انچیف بن گئے اور پھر جمال عبدالناصر کی انگیخت پر جمہوریت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ حافظ الاسد نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیس بائیس سالہ بیٹے بشار الاسد کو جس کی بیوی انگریز ہے، اپنا جانشین بنا لیا۔ عرب آمریتوں کے خلاف تحریک ’’عرب بہار‘‘ جب شام میں داخل ہوئی ، تو ایران ، لبنان اور عراق کے مسلح جتھے علوی آمر بشارالاسد کی حکومت بچانے کیلئے شام میں داخل ہو گئے۔ اس مداخلت کے نتیجے میں شام میں ہونے والی تباہی صدی کا سب سے بڑا المیہ بن گئی ہے۔
افغانستان کے تازہ انتخابات میں نتائج کم و بیش حسب سابق ہی ہیں۔ چنانچہ پہلے کی طرح اب پھر تاج صدارت کے حصول کیلئے دونوں پرانے حریف اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میدان میں کود پڑے ۔ تاہم ’’مہربانوں‘‘ نے اپنا بوجھ ایک بار پھر اشرف غنی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ صدارت کے دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے ’’باڑوں‘‘ میں بموں کے دھماکوں کی گونج میں حلف اُٹھایا۔ واضح رہے، صدارتی انتخابات ستمبر 19 میں ہوئے تھے، نتائج کا اعلان کئی ماہ بعد ہوا۔ انتخابی کمشن کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں موجودہ صدر اشرف غنی کی جیت کا مارجن بہت کم تھا۔ لیکن عبداللہ عبداللہ نے انتخابات کو فراڈ قرار دے دیا۔ اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں زلمے خلیل زاد اور کابل میں امریکی سفیر ، نیٹو کمانڈر اور یورپی یونین، کینیڈا ، آسٹریلیا ، ڈنمارک ، جرمنی اور ناروے کے سفیروں نے بھی شرکت کی۔ اس تقریب سے تھوڑے سے فاصلے پر، عین اُس وقت جب اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب جاری تھی ، عبداللہ عبداللہ بھی اپنی تقریب سجائے بیٹھے تھے۔ بعض لوگوں کا گمان تھا کہ زلمے خلیل زاد چونکہ عبداللہ عبداللہ کو سمجھا بجھا رہے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ تقریب نہ ہو ، مگر اسکے باوجود تقریب ہوئی ، البتہ دونوں کے تقریبات کے شرکاء سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’بادشاہ گروں‘‘ کی اشیرباد کسے حاصل ہے۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ زلمے خلیل زاد دونوں حریفوں کو کسی ’’بندربانٹ‘‘ پر راضی کر لیں گے۔ خدشہ ہے کہ اگر دونوں حضرات کسی بات پر راضی نہ ہوئے تو طالبان سے کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکیں گے اور یوں امریکہ کی طالبان اور طالبان اور افغان حکمرانوں کے مابین سمجھوتہ کرانے کی پاکستان کی ساری کوششیں اکارت جائیں گی۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پیر کو اشرف غنی کو افغانستان کا دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے اُنہیں کو افغانستان کا جائز اور منتخب صدر تسلیم کر لیا ہے۔ پاکستان اول روز سے افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور اس کیلئے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں۔ علاوہ ازیں سیاسی سطح پر امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ کرانے کیلئے ان تھک کوششیں کی ہیں۔ وزیراعظم نے امریکہ افغان طالبان معاہدے کی کامیابی کی تہہ دل سے دعا بھی کی ہے ، خدا کرے کہ افغان عوام بھی امن کا منہ دیکھیں اور انہیں پسماندگی دور کرنے کے مواقع اور امکانات مل سکیں۔

مزیدخبریں