فقدان راحت سے گھبرائے افراد کامیاب لوگوں کے بارے میں حسد سے کڑھتے رہتے ہیں۔ میری اپنی زندگی بھی بے شمارناکام حسرتوں کی زد میں رہی ہے۔ میری مرحومہ ماں کی تربیت نے مگر صبروقناعت کو طبیعت کا کلیدی حصہ بنادیا۔اپنے شعبے میں مشہور وخوش حال ساتھیوں کو دل سے سراہتا ہوں۔ ہمیشہ مصر رہا کہ ان میں یقینا کوئی خاص بات ہوگی جس نے انہیں صحافت جیسے مشکل دھندے میں بلند ترین مقام تک پہنچایا۔ نہایت خلوص سے یہ دُعا بھی مانگتا رہا کہ ایسی خصوصیت مجھے بھی نصیب ہوجائے۔عمرگزار دی گئی۔کامیابی کا ہنر دریافت کرنے میں تاہم ناکام رہا۔
میرے ایک بہت ہی محترم اور سینئر ساتھی کامران خان صاحب البتہ اس تناظر میں اسم بامسمیٰ رہے۔ ان کی شہرت وکامیابیوں سے جلنے والے اگرچہ ان کے خلاف سو طرح کی باتیں کرتے ہیں۔میں ان پر توجہ ہی نہیں دیتا۔بحث طویل ہوجائے تو یاد دلانے کو مجبور ہوجاتاہوں کہ ٹی وی صحافت ایک Cut Throatدھندا ہے۔عوام میںکسی اینکر کی مقبولیت کو ماپنے کے جدید ترین ذرائع متعارف ہوچکے ہیں۔کامران خان صاحب ان کے مطابق Ratingsنہ لے رہے ہوتے تو میری طرح گھر میں بیٹھ کر قلم گھسیٹ رہے ہوتے۔ 2018سے ٹی وی صحافت ویسے بھی شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔کامران خان صاحب مگر جس ٹی وی نیٹ ورک پر نمودار ہوتے ہیں وہ اس کے لئے اتنے بابرکت ثابت ہوئے ہیں کہ ان کا شو ایک گھنٹے کے بجائے 90منٹ تک چلایا جاتا ہے۔ان کے شو میں جو بتایا جاتا ہے اس سے اختلاف برحق مگر اس کی کامرانی اور مقبولیت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
طویل تمہید کی ضرورت اس وجہ سے محسوس ہوئی کیونکہ بدھ کے دن کامران خان صاحب کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر چھائی رہی۔اس وڈیو کے ذریعے وہ وزیر اعظم سے مخاطب ہوئے۔ انہیں خبردار کرنے کی کوشش کی کہ گزرے ہفتے کے دن قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر انہیں نئی زندگی عطا ہوئی ہے۔ اب غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ عمران خان صاحب کو اگر آئینی مدت کے بقیہ برس چین سے گزارنا ہیں تو چند اہم ترین فیصلے کرنا ہوں گے۔پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے عثمان بزدار صاحب کی فراغت ان کے تجویز کردہ اقدامات میں سرفہرست رہی۔
عثمان بزدار صاحب سے مجھے سرسری ملاقات کی سعادت بھی نصیب نہیں ہوئی۔ان کے چل چلائو کی تاہم میڈیا میں جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو میں ان سے کوئی تحفہ یا لفافہ وصول نہ کرنے کے باوجود لکھنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ تونسہ شریف سے اُبھرے اس بلوچ کا کلّہ بہت مضبوط ہے۔ کئی حوالوں سے وہ عمران خان صاحب کی ’’ضد‘‘ بھی ہیں اور ’’’کپتان‘‘ کو گھبرانے یا سرجھکانے کی عادت نہیں۔ وہ جس کی حمایت میں ڈٹ جائیں اس کے لئے ’’ستے خیراں‘‘ کا عالم رہتا ہے۔
2019سے تقریباََ ہر تیسرے مہینے میرے وہ صحافی دوست یا محض جان پہچان والے جو ’’اندر کی ‘‘ ہر خبر کی بابت ہمہ وقت آگاہ رہتے ہیں یکجا ہوکر ماحول بنانا شروع ہوجاتے ہیں کہ بزدار صاحب کا جانا ٹھہر چکا ہے۔اس تناظر میں چند مہربان دوستوں نے تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران اپنی’’خبر‘‘ یا قیافے کے ’’ذرائع‘‘ بھی کھل کر بیان کئے۔مجھے ان کی صداقت پر کامل اعتبار ہے۔اپنی رائے دینے سے مگر باز نہیں رہتا۔
عثمان بزدار صاحب کی ممکنہ فراغت کو یقینی دکھاتے ہوئے اکثر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ ان کے دورِاقتدار میں لاہور کا برا حال ہوگیا ہے۔اس شہر میں جسے شہبازشریف صاحب نہایت لگن سے انڈرپاسز اوور ہیڈ پلوں،پارکوں اور میٹروبسوں وغیرہ کی بدولت جنوبی ایشیاء کا پیرس بنانا چاہ رہے تھے اب جابجا کوڑے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔معمول سے زیادہ بارش ہوجائے تو کئی پوش علاقوں میں بھی جوہڑنمودار ہوجاتے ہیں۔لاہورکی ’’بدحالی‘‘ دیکھتے ہوئے یہاں کے مکینوں کو شہباز شریف یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔بھول جاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ’’صادق اور امین‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔شہبازشریف کی ذات اور ان کی اولاد کے بارے میں مبینہ منی لانڈرنگ وغیرہ کے ’’ثبوت‘‘‘ بھی نظر انداز کردئیے جاتے ہیں جو دور حاضر کے شرلک ہومز یعنی شہزاد اکبر مرزا صاحب نے نہایت محنت سے جمع کئے ہیں۔
لاہور میرا ہی نہیں بلکہ میرے والدین کا آبائی شہر بھی ہے۔اس کی ’’بدحالی‘‘ کا آغاز تو میری دانست میں 1960کی دہائی ہی میں شروع ہوگیا تھا جب اسے آباد رکھنے والا راوی بھارت کے کامل کنٹرول میں دے دیا گیا تھا۔لندن دریائے ٹیمز کے بغیر آباد رکھنے کا کوئی سوچ ہی نہیں سکتا۔ ہڈسن نامی دریا نہ ہوتا تو نیویارک جیسا شہر بھی نمودار نہ ہوتا۔ شہروں کی تاریخ اور خوش حالی کے اسباب سے واقف کسی بھی ماہر سے چند لمحے گفتگو کریں تو وہ بآسانی سمجھادے گا کہ دریا شہروں کے ’’باپ‘‘ کی طرح ہوتے ہیں۔راوی اس حوالے سے لاہور کا ’’پالن ہار‘‘ تھا۔ اسے غیروں کے سپرد کرکے ’’بدحالی‘‘ کے مرثیے پڑھنا مجھے منافقانہ سیاپہ فروشی محسوس ہوتی ہے۔
بات لمبی ہوجائے گی۔بزدار صاحب کی جانب لوٹتے ہیں۔ان کی ’’فراغت‘‘ کی بابت قیاس آرائی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے آپ کو یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ’’موروثی سیاست‘‘ کے خلاف جدوجہد کے دوران عمران خان صاحب شہبازشریف کو ہمیشہ حقارت سے ’’شوباز‘‘ پکارتے رہے ہیں۔ان کی تقاریر مسلسل اس دُکھ کا اظہار بھی کرتی رہیں کہ پاکستان کے آبادی کے اعتبارسے سب سے بڑے اور خوش حال صوبے کے تمام تر وسائل لاہور کی ’’ترقی‘‘ پر خرچ ہورہے ہیں۔اس ’’ترقی‘‘ کے نام پر چلائے منصوبے درحقیقت شریف خاندان کی مبینہ ’’کرپشن خوری‘‘ کے سہولت کار ہیں۔ ’’شوباز‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان صاحب قوم سے یہ وعدہ بھی کرتے رہے کہ وہ جب اقتدار میں ا ٓئیں گے تو پنجاب کے وسائل اس صوبے کے پسماندہ علاقوں کی تقدیر بدلنے پر مرکوز کردئیے جائیں گے۔عثمان بزدار صاحب کو اگست 2018میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھاکر انہوں نے مذکورہ وعدے کے ایفا کا بندوبست کیا۔لاہور میں مقیم صحافی مگر اس پہلو کی جانب نگاہ ہی نہیں ڈالتے۔
مجھے گماں ہے کہ لاہور کی مبینہ ’’بدحالی‘‘ کا سبب عثمان بزدار صاحب کی کوتاہی یا بے اعتنائی نہیں۔وہ اپنے قائد کی نگرانی میں پنجاب کے وسائل کو اس صوبے کے پسماندہ اضلاع کی تقدیر سنوارنے پر صرف کررہے ہیں۔عمران خان صاحب کے بقول ہمارا ’’بکائو‘‘ میڈیا مگر اس تبدیلی کو مناسب انداز میں Projectنہیں کررہا۔منصور آفاق صاحب غالباََ وہ واحد کالم نگار ہیں جو تواتر سے ان خوش گوار تبدیلیوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں جو بزدار صاحب کی لگن کی بدولت جنوبی پنجاب کے ان اضلاع میں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں جنہیں ’’تخت لہور‘‘ پر دس سال تک براجمان رہے ’’شوباز‘‘ نے ہمیشہ نظرانداز کیا۔
لاہور شہر نے بھی عمران خان صاحب کو دل سے احسان مندی کا پیغام نہیں دیا۔کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ’’کپتان‘‘ نے اس شہر میں بھکاریوں طرح چندہ جمع کرکے کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کا جدید ترین ہسپتال تعمیر کیا۔خلقِ خدا کی مزید خدمت کے ارادے سے وہ بالآخر سیاست میں آئے تو لاہور شہر نے انہیں مناسب پذیرائی نہ بخشی۔ 1997اور 2002کے انتخاب میں ان کی جماعت کو یہاں سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں ملی۔میانوالی نے اپنے ’’فرزند‘‘ یعنی عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی کا 2002میں رکن بنوایا۔2013کے انتخاب کے دوران بھی لاہور نے تحریک انصاف کو خاص لفٹ نہیں کروائی۔2018میں اگرچہ تھوڑی شفقت برتی۔ظلم مگر یہ بھی ہوا کہ لاہور سے قومی اسمبلی کی جو نشست عمران خان صاحب نے جیتی تھی وہ خالی ہوئی تو وہاں کے رائے دہندگان نے دوبارہ بقول تحریک انصاف شریف خاندان کے ’’ذہنی غلام‘‘ خواجہ سعد رفیق کے سپرد کردی۔اپنے شہر کی ’’بحالی‘‘ کا رونا روتے ہوئے لاہوریوں کو تحریک انصاف کو ’’ناشکری‘‘ دکھاتے ایسے واقعات میں یاد رکھنا چاہئیں۔گزشتہ برس کے دسمبر کی 13تاریخ کو پی ڈی ایم کا مینارِ پاکستان تلے ہوا جلسہ ’’ناکام‘‘ بناکر میرے شہر والوں نے ا پنی خطائوں کے ازالے کی کوشش کی تھی۔ یہ مگر کافی نہیں۔انہیں عمران خان اور عثمان بزدار کی شفقت کے حصول کے لئے Do Moreکرنا ہوگا۔