کرپشن روکنے میں نیب کا کردار نمایاں، سیاستدان اور حکمران اس کے بڑے دشمن

لاہور (محمد اکرم چودھری) غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہو سکتی ہے۔ انصاف اس وقت قائم ہو گا جب وسائل کی تقسیم مساوی ہو گی۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے۔ قومی وسائل لوٹنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ احتساب کے ادارے مضبوط اور غیر جانبدار ہوں گے، کرپشن روکنے کے لیے قائم ادارے آزاد و خود مختار ہوں گے اور کرپٹ عناصر کے خلاف بلا خوف و خطر کارروائی کریں گے۔ جب تک کرپشن روکنے، انصاف کی فراہمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یکجا ہو کر کام نہیں کریں گے اس وقت تک کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ آج ملک میں نیب کو سب سے زیادہ متنازع سمجھا جاتا ہے جب کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نیب کے سوا کرپشن روکنے کے تمام ادارے ذمہ داریاں نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کرپشن کرنے والوں کو پکڑنے اور انہیں انجام تک پہنچانے میں ان کا حصہ بمشکل دس فیصد بنتا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں نیب کی کارکردگی پچپن سے پینسٹھ فیصد کے درمیان نظر آتی ہے۔ اس کارکردگی کے باوجود سب سے زیادہ برا بھلا بھی نیب کو ہی کہا جاتا ہے۔ سیاست دان اور حکمران نیب کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ انہیں کوئی دوسرا ادارہ پوچھتا نہیں ہے نیب سختی کرتا ہے تو جواب میں اس کا کردار ہی متنازع بنایا جا رہا ہے۔ کرپشن روکنے والے دیگر ادارے تو شاید کرپشن کرنے کے ساتھی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ لیکن نیب سب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ سیکشن ٹین یعنی احتساب عدالتوں کے ذریعے سزا یہاں 2018 میں اٹھائیس سزا یافتہ افراد سے 1180442240 روپے کا جرمانہ ہوا۔ 2019 میں دو افراد کو 28727000 روپے کا جرمانہ ہوا۔ 2020 میں تیرہ افراد کو سزا ہوئی اور 130384316 روپے جرمانہ ہوا۔ یہ کل رقم 1339553556 روپے بنتی ہے۔ جبکہ پلی بارگین کے ذریعے 2018 میں باسٹھ افراد سے 3148235628 روپے ریکور کیے گئے۔ 2019 میں انسٹھ افراد سے 508894093 روپے ریکور کیے گئے۔ دو ہزار بیس میں چھبیس افراد سے 4105365706 روپے ریکور کیے گئے۔ دو ہزار اٹھارہ میں نیب سے سزا پانے والوں کی شرح تراسی فیصد، دوہزار انیس میں ستر اور دو ہزار بیس میں اٹھہتر فیصد رہی ہے۔ 2000 سے 2016 تک یہ شرح ستر فیصد ہے۔ دو ہزار سولہ، سترہ، اٹھارہ، انیس اور بیس میں نیب کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ اس عرصے میں نیب کی کارکردگی کا معیار بہتر ہوا ہے۔ اربوں روپے کی ریکوری کی گئی جبکہ اربوں کے ریفرنس فائل ہوئے ہیں۔ اس کارکردگی کے باوجود نیب اور ملک ساتھ ساتھ نہ چلنے کے نعرے سننے کو ملتے ہیں۔ کیا ملک کے تمام نمایاں سیاست دان ان اعداد و شمار کو جھٹلا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن