وزیراعظم عمران خان کا وژن ’’نیا پاکستان‘‘کا فلسفہ ہے وہ اس منصوبہ کو عملی شکل میں فروغ پذیر کرنے کے لئے کوشاں ہیں انہوں نے اپنے ساتھیوں میں سردار عثمان بزدار کو اس مشن کی تکمیل کے لئے پنجاب کاوزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے وزیر اعلیٰ کو وزیراعظم کا مکمل اعتماد اور سرپرستی حاصل ہے وزیراعلیٰ خود بھی ایمان دار اور محنتی حکمران ہیں جو ہر وقت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے متحرک رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہر روز بیانات بھی دیتے ہیں ساتھ ہی وہ سابق حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی مذمت بھی کرتے ہیں۔پنجاب حکومت نے 10فروری 2021 کو ضابطہ دیوانی کا ترمیمی آرڈیننس نافذ کیا ہے جسکا اطلاق پنجاب کی تمام عدالتوں پر ہو گا ۔اس کے عنوان میں کیا گیا ہے کہ یہ ترمیمی آرڈیننس عوام کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لئے فوری طور پر نافذ کیا جاتا ہے ۔اسکے متن کے موضوعی مطالعہ سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ ترمیمی آرڈیننس عوام پر مالی بوجھ بڑھانے اور انصاف کے مرکز کو انکے گھروں سے اوجھل کرنے کے لئے نافذ کیا گیا اور اس کے نتہجہ میں مقدمات میں تاخیر کا عنصر بھی شامل ہے یہی وجہ کہ پنجاب بار کونسل نے پنجاب بھر میں اس قانون کے خلاف ہڑتال کرائی ہے اور احتجاجی تحریک بھی شروع کر دی ہے ۔ضابطہء دیوانی مجریہ 1908انگریز حکومت کا نافذ کردہ قانون ہے جو پورے ہندوستان پر محیط تھا۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان نے ضابطہء دیوانی کو ایک مرکزی و وفاقی قانون کی حثیت سے اپنا لیا اور اسکا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں پر ہو گیا انصاف کی دستیابی کو جلد اورسستا کرنے کے لئے ترمیمیں ہوتی رہیں لیکن مطلوبہ مقاصد تاحال حاصل نہ ہوسکے اسلئے کہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں براجمان حکمران عوامی زندگی سے نا آشنا ہیں۔یہ امر قابل غور ہے کہ ایک صوبائی حکومت وفاقی قانون میں کس طرح ترمیم کر سکتی ہے میری رائے میں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک صوبائی حکومت وفاقی قانون میں ترمیم کرنے کی مجاز نہ ہے اور پارلیمنٹ ہی اس قانون میں ترمیم کر سکتی ہے جو اس ترمیم کے دائرہ کار کو ایک صوبے تک محدود کر سکتی ہے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پنجاب حکومت نے کس عملی کے تحت ایک آرڈننیس کے ذریعے فوری طور پر ترمیم کر دی ہے۔ گورنر پنجاب ایک دو دن کے لئے غیر حاضر تھے انکی غیر حاضری میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے بحثیت قائمقام گورنر ترمیمی آرڈننیس نافذ کر دیا یوں یہ کاروائی ایک عوام دوست سیاسی لیڈر سے کاروائی گئی ہے تاکہ سند رہے ۔دعویٰ جات کی دائری اور اسکی جوابدہی کے طریقہ کار کو پیچدہ بنا دیا گیا ہے ترمیم شدہ قانون کے تحت فریقین کو زیادہ مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت شہادت فریقین قلمبند کرنے کے لئے کمیشن کا تقرر کرے جو شہادت فریقین قلمبند کریگا کمیشن وکلاء اور ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ہو گا فریقین کمیشن کو فیس ادا کریں گئے اس سے قبل عدالت خود شہادت قلمبند کرتی تھی کمیشن کا طریق کار بھی پیچیدہ ہے گویا کمیشن عدالت کی حثیت سے یہ امور انجام دے گا اس عمل میں گڑ بڑ کے خدشات خارج از امکان نہیں اس طرح فریقین کے درمیان نئے تنازعات پیدا ہو جائیں گئے ۔ترمیمی قانون میں ایک بڑی تبدیلی کی گئی ہے اس سے پہلے ابتدائی عدالت کے حتمی و آخری فیصلوں کے خلاف اپیل ڈسٹرکٹ کورٹس میں دائر کی جاتی تھی ڈسٹرکٹ کورٹس ڈسٹرکٹ ججوں اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججوں پر مشتمل ہوتی ہے ترمیم میں یہ لازم قرار دیا گیا ہے ابتدائی عدالت کے ایسے فیصولوں کے خلاف پہلی اپیل ہائی کورٹ میں دائر ہوگی ہائیکورٹ میں پہلے ہی مقدمات کا بہت بوجھ ہے اس ترمیم کے بعد یہ بوجھ بھی بڑھ جائے گا ۔
پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف پہلی اپیل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں دائر ہوتی تھی اور دوسری اپیل ہائیکورٹ میں دائر ہوتی تھی بعد میں ہائیکورٹ کا بوجھ کم کرنے کے لئے دوسری اپیل کا قانون ختم کر دیا گیا تھا اس وقت پہلی اپیل کا طریقہ کار یہ تھا کہ ضلع کے صدر مقام پر ڈسٹرکٹ جج کی عدالت ہوتی تھی اس کے ساتھ ایڈیشنل ڈسڑکٹ ججوں کی عدالتیں بھی تھی جو دیوانی اپیلوں کے فیصلے کرتی تھیں سائلان کو ضلع کے صدر مقام پر دور دراز دیہات سے سفر کر کے اپیلوں کی پیروری کرنی پڑتی تھی وکلاء کی فیسیں تحصیل کے وکلاء سے زیادہ تھی تاہم ہر تحصیل میں سول ججوں کی عدالتیں قائم تھی ۔15/20قبل کسی بڑے عہدے پر فائز کسی بڑے جج کے دل میں عوام پر رحم آیا اور اس نے اس طریقہ کار کو تبدیل کر دیا اور ہر تحصیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججوں کی عدالتیں قائم ہو گیں اب ہر تحصیل میں ایسی عدالتیں موجود ہیں جو ابتدائی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کے فیصلے کرتی ہیں اور سائلان کو ضلع کے صدر مقا م پر جانا نہیں پڑتا تحصیل میں وکلاء کی فیسیں بھی کم ہیں اور سائلان کے گائوں بھی نزدیک ہیں اس طرح سائلوں کو یہ سہولت میسر ہے لیکن ترمیمی قانون کے تحت پہلی اپیل ہائیکورٹ میں دائر ہو گئی اس طرح سائلان کو مزید مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا اور وقت بھی زیادہ صرف ہو گا۔ترمیمی قانون کے تحت صوبائی حکومت نے پنجاب کے عوام کو جلد اور سستے انصاف کا تحفہ دیا ہے جیسا کہ ترمیمی قانون کے عنوان میں تحریر ہے تاہم انسانی اس حکمت عملی کا ادراک کرنے سے قاصر ہے عوام کو ہر تحصیل میں جو سہولت حاصل تھی عوام سے یہ سہولت چھین لی گئی ہے ہائیکورٹ پر بھی مقدمات کا بوجھ بڑھ جائے گا سپریم کورٹ پر بھی یہ بوجھ بڑے گا اور عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جائے گا ہر انسان کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا اس طرح اکثر و بیشتر عوام انصاف کی فراہمی سے محروم ہو جائیں گئے۔’’نیا پاکستان‘‘ کا یہ خوبصورت نقشہ ہے اور ریاست مدینہ کے خواب کی تعبیر ہے کیاں مدینہ شریف میں ایسا ہی ہوتا تھا وہاں تو انصاف بلا معاوضہ فراہم کیا جاتا تھا یہاں پہلے ہی عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہے وزیراعظم عمران خان کو قانون کی ان تبدیلیوں کا نوٹس لینا چاہئے شہریوں کی نگائیں وزیراعظم کی ذات پر مرکوز ہیں جو عوام کی آخری امید ہیں۔