مگر ملتان میں رہتے ہوئے ایک بات کا احساس بہت شدت سے ہوتا ہے کہ یہاں پر مانگنے والوں کا بہت رش ہے ہر طرف اور بہت زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ میں نے کچھ ہوٹلوں میں چار پانچ مزدوروں کو ایک پلیٹ سالن کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے بھی دیکھا تو احساس ہوا کہ اس پاکستان کی بیشتر آبادی تو صرف اپنا پیٹ بھرنے کیلئے دو وقت کی روٹی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔ اللہ کرے کے ان کیلئے بھی کوئی سوچے۔ اسلام کے اولین دور میں خلفائے راشدین نے اپنے علاقوں میں سرائے بنائے جہاں پر مسافروں کو رہنے کی جگہ اور غریبوں کو پیٹ بھر کے کھانا ملتا تھا۔ اور پھر اس بہادر شہنشاہ حضرت عمر فاروق ؓ کی بات یاد آئی کہ جن کی حکومت 22لاکھ مربع میل پر پھیل چکی تھی انہوں نے فرمایا کہ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کیلئے بھی میں جوابدہ ہوں‘‘۔ آج ہماری حیثیت تو ان کے سامنے کچھ بھی نہیں مگر انہوں نے آقائے دو جہاں کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنوارا ہے ۔ آ ج جس بھوک اور افلاس کا سامنا ہمیں ہے وہ روز بروز بھیانک ہوتی جا رہی ہے اور کرونا کی وبا کے باعث روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اللہ ان لوگوں پر اپنا انعام کرے کے جو ایسے نادار اور معاشرے میں پسے ہوئے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں مگر حالیہ حکومت میں پہلی بار ملک کے سربراہ نے انکے درد کو محسوس کیا اور سب سے پہلے ان سڑکوں پر رات کو بسیرا کرنے والوں کو چھت مہیا کی اور پورے ملک میں پناہ گاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہ خواب جس کا عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ملک کو ریاستِ مدینہ بنائینگے اسکی بنیاد رکھی ۔ یہ خواب بلاشبہ علامہ اقبال ، قائد اعظم اور عمران خان کا سہی مگر اس خواب کو تعبیر بنانے کا بیڑا ثانیہ نشتر نے اٹھایا ہے جو دن رات انتھک کوشش کر کے اس تعبیر کی جانب رواں دواں ہیں۔ڈاکٹر ثانیہ نشتر امراضِ قلب کی ڈاکٹر ہیں اور دل کے امراض کو سمجھنے اور ان کے علاج میں مہارت رکھتی ہیں اور ان کی خدمات کو پوری دنیا نے سراہا ہے ۔ عمران خان بھی حکومت حاصل کرنے کے بعد سمجھ گئے تھے کہ یہاں مسئلہ دل کا ہے ۔ اور ملک کا دل مختلف قسم کے امراض کا شکار ہے اور ان علاج ایک ماہر ہی کر سکتا ہے اور شائد اسی وجہ سے ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ انہوں نے زندگی میں بہت سے کارہائے بنایاں سرانجام دئے جن سے ہم سب واقف ہیں مگر اس تحریر کیلئے درکار معلومات کی غرض سے جب میں نے ان کا ٹوئٹر اکائونٹ دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے ایک بھی دفعہ اپنے قائد کے حق میں نعرے بازی نہیں کی۔ کہیں ایک بار بھی کسی بھی اقدام کیلئے عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی تشہیر نہیں کی۔ پورے ملک کو سینٹ کے انتخابات نے اپنے نرغے میں لیا ہوا تھا مگر اس تمام دورانئے میں بھی وہ لوگوں کو احساس پروگرام کے تحت چلنے والی اسکیموں کے متعلق معلومات فراہم کر رہیں تھیں اور انکے ذمے جو ذمہ داریاں تھیں وہ انجام دے رہی تھیں۔ سینیٹر منتخب ہونے پر بھی صرف اللہ کا شکر ادا کیا اور کوئی شو نہیں ماری۔ احساس پروگرام سے لاکھوں لوگوں کو کرونا کے دوران نقد رقم کی فراہمی یقینی بنائی گئی اور ہر ممکنہ کوشش کی گئی کہ غریب لوگوں پر اس وباکا معاشی اثر کم سے کم ہو۔ احساس پروگرام کے تحت دیگر شعبوں میں اس جدو جہد کو جاری رکھا گیا جس میں ملک بھر کی 125پبلک یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کیلئے احساس انڈر گریجویٹ سکالرشپس کا آغاز کیا گیا اور میں ایک یونیورسٹی میں رہتے ہوئے اس بات کا گواہ ہوں کہ یہاں کے طلبہ کی کثیر تعداد کو ناصرف پورے سال کی فیس ادا کی جاتی ہے بلکہ انہیں پورے سال کے لئے ماہانہ جیب خرچ بھی مہیا کیا جاتا ہے ۔ اسکے علاوہ ملک کے 100سے زائد اضلاع میں سکول کے بچوں کو ماہانہ وظائف جن میں لڑکیوں کو 1000روپے اور لڑکوں کو 750روپے ادا کئے جاتے ہیں تا کہ انکے ماں باپ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔ اور نہ جانے کتنے پروگرام چل رہے ہیں اور مزید پلان کئے جا رہے ہیں اگر ان سب کے بارے میں تفصیل یا ان کا ذکر ہی کیا جائے تو شاید اس تحریر کو کئی قسطوں میں شائع کرنا پڑے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو اور حوصلہ اور ہمت عطا ہو اور وہ جو ملک پسے ہوئی طبقے کے احساس کا بیڑا اٹھا کر نکلی ہیں اللہ انہیں منزل مقصود تک پہنچائے اور اللہ کرے کہ پاکستان میں وہ دن جلد آئے جب کوئی مزدور کوئی غریب رات کو بھوکا سڑک کنارے فٹ پاتھ پر نہ سوئے۔ کوئی یتیم مسکین اپنے گھر کی چار دیواری میں سسکیاں لے کر اللہ سے گلہ نہ کرے بلکہ ایسے درد دل رکھنے والے لوگوں کیلئے دعا کرے۔ اللہ کرے۔ (آمین)