تحریر : مولانا خورشید احمد گنگوہی
28 رجب 1342ھ کی رات و ہ’’ شب سیاہ ‘‘تھی جس کے بعد مسلم امہ نے کوئی صبح نہ دیکھی۔ مصطفی کمال نے استنبول کے گورنر کو حکم دیا کہ ’’صبح طلوع ہونے سے پہلے خلیفہ عبد المجید ترکی چھوڑ چکے ہوں‘‘ اس حکم پر فوج اور پولیس کی مدد سے عمل در آمد کیا گیا اور خلیفہ کو مجبور کر دیا گیا کہ سویزر لینڈ جلاوطن ہو جائیں۔
28 رجب 1342ھ مطابق 3 مارچ 1924 ء کو صبح یہ اعلان کیا گیا کہ’’ عظیم قومی اسمبلی نے خلافت کے خاتمہ اور مذہب کے دنیا سے علیحدگی کے قانون کی منظوری دے دی، برطانوی سیکرٹری خارجہ لارڈ کرزن نے کہا ’’ترکی تباہ کر دیا گیا ہے اب وہ کبھی بھی اپنی عظمت رفتہ بحال نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے اس کی روحانی طاقت کو تباہ کر دیا ہے یعنی خلافت اور اسلام‘‘۔
خلافت کے خاتمہ کے بعد امت کی حالت ایسی ہوگئی جسے پرورش طلب بچہ اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو جائے اور خود غرض دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے تنہا رہ جائے۔ خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی استعماری کفار بھوکے بھیڑیوں اور گدھوں کی طرح اس امت پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے اس امت کا خون چوسنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اسلامی شریعت کو معطل کر دیا گیا۔ سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ریاست کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا دے کر تقسیم کر دیا گیا۔ اسلام کی عادلانہ معیشت کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے بدل دیا گیا اور مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی اسلامی حکومت کے بجائے سیکولرکردار حکومتی ڈھانچے کے ذریعہ کی جانے لگی ۔
اس حادثہ سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ کبھی کوئی چیز اتنی جلدی فراموش نہیں کی کئی جتنی جلدی مسلمانوں نے اپنے اس مرکز کو دل و دماغ سے محو کر دیا جو ان کے اتحاد کی علامت تھا اور جس کے ذریعہ اپنے مسائل کے حل کے لیئے وہ عملی اقدامات اٹھایا کرتے تھے۔ خلافت ان کی دینی و سیاسی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ وہ اس کے انعقاد کو اپنے ہاں واجب سمجھتے تھے۔۔۔۔نماز ایسا واجب عمل ہے جو وضو پر موقوف ہے اس لیئے وضو کو نمازکا مقدمہ کہا جاتا ہے۔ جس کے ذمہ نماز واجب ہوگی ، نماز کا موقوف علیہ یعنی وضو بھی اسی کے ذمہ واجب ہوگا۔ نماز مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق واجب ہے تو اس کے اسباب کو شریعت کے مطابق مہیا کرنا بھی مسلمانوں ہی پر واجب ہوگا۔ اس لیئے ادارئہ خلافت پوری شریعت اسلامیہ میں مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسلمان اپنے عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک تسلسل کے ساتھ منصب خلافت پر سرفراز رہے ۔ سیدناحضرت ابوبکر صدیق کے انتخاب 10ھ سے لیکر خلیفہ مستعصم باللہ عباسی کی شہادت 656ھ تک عالم اسلام خلیفۃ المسلمین سے کبھی محروم نہیں رہا۔ خلیفہ مسترشد باللہ جیسے سلطان مسعود سلجوقی نے 10رمضان المبارک 539ھ میں گرفتار کیا تھا اور جس کا زمانہ اسیری تین ماہ اور سات روز سے زیادہ نہیں تھا اس گرفتاری کے دوران عالم اسلام خلیفہ کے بغیر رہا لیکن اسلامی دنیا کے لیئے یہ ایسا المناک واقعہ تھا کہ جس کے رونما ہونے سے بغداد زیر وزبر ہوگیا۔ علامہ ابن کثیر نے اس اندوہناک منظر کو اس طرح پیش کیا کہ ’’بغداد کے باسیوں میں ظاہر و باطن کے لحاظ سے ایک زلزلہ آگیا۔ عوام نے مساجد کے منبر توڑ دیے اور نماز باجماعت میں شریک ہونا چھوڑ دیا۔ مسلمان عورتیں برہنہ سر باہر نکل آئیں اور خلیفہ کی قید پر رونے لگیں دوسرے علاقے بھی بغداد کے نقش قدم پر چل نکلے اسکے بعد یہ فتنہ اس قدر پھیلا کہ تمام علاقے اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ملک سنجر نے یہ حالت دیکھ کر اپنے بھتیجے کو معاملہ کی نزاکت سے خبردار کیا اور اسے حکم دیا کہ فوراً خلیفہ کو آزاد کر کے خلافت بحال کر دے۔ ملک مسعود نے اس حکم کی تعمیل کی۔‘‘
مسلمان خلیفہ سے کتنی عقیدت و محبت رکھتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ خلیفہ مستعصم باللہ کی شہادت پر شیخ سعدی نے ایک دلدوز مرثیہ کہا باوجودیکہ آپ مرکز خلافت سے بہت دور شیراز میں رہتے تھے۔ اس نوحے کے یہ اشعار بہت مشہورہیں:
آسمان را حق بود گر خوں ببارد بر زمین
بر زوال ملک مستعصم امیر المؤمنین
اے محمد ؐ! گر قیامت سربروں آردزِخاک
سربروں آرد قیامت درمیانِ خلق بین
ترجمہ:’’ اگر امیر المؤمنین مستعصم کے زوال پر آسمان،سے خون کی بارش ہو تو بجا ہوگا۔ اے محمد ؐ اگر ،قیامت زمین پر ہونی تھی تو آکر دیکھئے کہ،مخلوق خدا پر قیامت گزر گئی ہے۔‘‘
اسلام دشمن طاقتیں خلافت کو منہدم کرنا کیوں ضروری سمجھتی تھیں اس کا پتہ ایک واقعہ سے چلتا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ساتھ تحریک آزادی کے سلسلہ میں مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے۔ وہاں ایک انگریز افسر تھا جس کا کسی جرم میں کورٹ مارشل ہوا تھا اور وہ بھی وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ حضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پوچھا کہ خلافت عثمانیہ، مسلمانوں کی ایک کمزور سی خلافت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ برطانیہ، فرانس اور اٹلی اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم مسلمان اس نام کی خلافت سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن سارا یورپ اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تمہیں خلافت ترکیہ سے خطرہ کیا ہے؟
اس نے کہا مولانا آپ کا سوال اس قدر سادہ نہیں جس سادگی سے آپ پوچھ رہے ہیں یاد رکھیئے! خلافت عثمانیہ ایک کمزور سی خلافت ہے مگر قسطنطنیہ میں بیٹھا ہوا ’’خلیفہ‘‘ آج بھی کسی غیر مسلم ملک کے خلاف اعلان جنگ کر دے تو مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک مسلمان نوجوانوں کی بھرتی شروع ہو جائے گی۔ سارا یورپ ان دو لفظوں ’’خلافت اور جہاد‘‘ سے کانپتا ہے یورپ کے تمام ممالک متحد ہو کر ان دولفظوں کی قوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے یہ کر دکھایا۔
خلیفہ عبد المجید ثانی کی معزولی اور سقوط خلافت کا نامبارک اقدام امت مسلمہ کے لیے بیسویں صدی کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوگیا مقاماتِ مقدسہ اغیار کے قبضہ میں چلے گئے۔ عالمِ عرب میں اسرائیل نے جنم لیا پاکستان دو لخت ہوا افغانستان میں آتش فشاں پھٹا بابری مسجد نے چیخ و پکار کی وادئ کشمیر مسلمانوں کا مقتل بن گئی عراق کا عرق نکال دیا ، لبنان خون میں نہا گیا، شام اور برما کے مظلوم مسلمانون کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ،مسلمان یتیم اور لاوارث ہوگئے۔
ضروری ہے ہمارے خواص و عوام نظام حیات اور طرز حکومت لینے کے لیئے اقوام مغرب کی طرف حریصانہ نظروں سے دیکھنے کے بجائے اپنا رشتہ تابناک ماضی سے جوڑ لیں اور شاہراہ خلافت پر گامزن ہوکر ایک حقیقت شناس مرد قلندر کے اس کہے کو سچا کر دکھائیں کہ:
؎ اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ