بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے جمہوری اقدار کے نگراں سویڈن کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا، ''بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا۔'' اس سے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔سویڈن کے معروف ادارے 'وی ڈیم' نے بھارتی جمہوریت سے متعلق اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بھارت کو ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کے بجائے اس کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اب اسے محض، ''انتخابی جمہوریت'' قرار دیا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے، ''میڈیا پر پابندی، بغاوت اور ہتک عزت جیسے قوانین کے کثرت سے بے جا استعمال کا حوالہ دیا ہے۔چند روز قبل ہی امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک امریکی ادارے 'فریڈم ہاوس' نے بھی آزادی کے لحاظ سے بھارت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے آزاد ملک سے جزوی طور پر آزادملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا جس پر بھارت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔وی- ڈیم نے اپنی رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے کہا ہے، ''بھارت بھی اب آمریت پسند ہوچکا ہے اور اس کی صورت پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر ہے۔ مودی کی قیادت والی حکومت عموما اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جب سے بی جے اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ساٹھ ہزار افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بیشتر ایسے لوگوں کو ملزم قرار دیا گیا ہے جو حکمراں جماعت پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔'' رپورٹ میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے لیے متنازع قانون یو اے پی اے کا خصوصی طور پر ذکر ہے جس کے متعلق کہا گیا کہ اسے، ''صحافیوں اور سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت، آئین میں جن سیکولر اقدار کا عہد کیا گیا ہے اس کے خلاف کا م کر رہی ہے۔'' رپورٹ میں شہریت سے متعلق بھارت کے نئے قانون سی اے اے کا بھی خاص طور پر ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومت اس کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے طلبا اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو سزا دینے کے لیے بھی یو اے پی اے کا استعمال کر رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں ایک جانب حکومت نے سول سوسائٹی کو حتی الامکان دبانے کے لیے تمام طریقوں کا استعمال کیا ہے وہیں سخت گیر ہندو نظریاتی اداروں اور ان کی اتحادی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ''بی جے پی نے سول سوسائٹی تنظیموں پر قد غن لگانے اور انہیں محدود کرنے کے لیے 'فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ' (ایف سی آر اے) کا خوب استعمال کیا ہے۔'' سویڈن کی اس تنظیم نے عالمی سطح پر جمہوریت کی صورت سے متعلق جو رپورٹ جاری کی اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ہے لبرل جمہوری اقدار میں کمی آئی ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے ابھی تک اس رپورٹ پر کوئی رد عمل نہیں آیا ہے تاہم چند روز قبل حکومت نے امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے معروف ادارے 'فریڈم ہاوس' کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا، جس میں نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی مبینہ بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے ''جزوی طور پر آزاد'' ملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔واشنگٹن میں واقع ادارے 'فریڈم ہاوس' نے تین مارچ کو ''فریڈم ان دی ورلڈ'' عنوان سے جو رپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلم شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک بدستور جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی وجوہات کے سبب رواں برس کی درجہ بندی میں بھارت کی پوزیشن کافی نیچے آگئی ہے۔اس رپورٹ میں بھی، ''متعدد ایسے طریقہ کار کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے تحت ہندو قوم پرست حکومت اور اس کے اتحادی بڑھتی ہوئی پر تشدد کارروائیوں اور تفریق پر مبنی سلوک کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔'' فریڈم ہاوس نے اپنی رپورٹ میں گزشتہ برس دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات، حکومت کے ناقدین کے خلاف بغاوت کے مقدمات اور کورونا وائرس کے سد باب کے لیے مودی حکومت نے جو لاک ڈان نافذ کیا اس دوران مہاجر مزدوروں پر گزرنے والے مصائب کا خاص طور پر ذکرکیا تھا۔ بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی ایک بیان میں امریکی ادارے کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہاتھا، ''بھارت کو آزاد ملک سے جزوی طور پر آزاد ملک کی فہرست میں رکھنا پوری طرح سے غلط، گمراہ کن اور غیر متوقع بات ہے۔''لیکن امریکی ادارے کی رپورٹ میں حوالوں کے ساتھ تفصیل سے بتایا گیا ہے کس طرح، ''مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی رہنمائی میں انسانی حقوق کی تنظیموں پر دبا ڈالنے، دانشوروں اور صحافیوں پر دھونس جمانے اور لنچنگ سمیت مسلمانوں پر سلسلہ وار متعصبانہ حملے جاری ہیں۔