لاہور (کامرس رپورٹر) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں کی مناسبت سے اس وقت پٹرول کی قیمت 240 روپے لٹر ہونی چاہئے لیکن ہم 150روپے لیٹر میں عوام کو پٹرول دے رہے ہیں۔ حکومت خود اس کا بوجھ برداشت کر رہی ہے اور اس مد میں پٹرولیم مصنوعات پر 104ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دے رہے ہیں، ہماری اکانومی کی پیداواری صلاحیت کم ہے، 22کروڑ لوگوں میں سے صرف 30 لاکھ لوگ ٹیکس جمع کراتے ہیں، ہم نے ایسے لاکھوں لوگوں کا ریکارڈ حاصل کر لیا ہے جو قابل ٹیکس آمدن ہونے کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے، لیکن اب وہ ٹیکس چوری سے بچ نہیں سکتے۔ چین کو زراعت کے حوالے سے مدد کرنے کا کہا۔ 40 لاکھ خاندانوں کے لئے خصوصی پیکج بنا لیا ہے اور اگلے پانچ سال میں 1.6 کھرب روپے تقسیم کریں گے جس سے کاروبار بڑھے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور میں مختلف تقریبات کے دوران خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ شوکت ترین نے کہا کہ ہم ساٹھ کی دہائی میں صنعتکاری کی طرف جا رہے تھے اور ہم نے صنعت کو نیشنلائز کرنا شروع کر دیا۔ اس سے ہماری معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گئی۔ ہم نے کسی اور کی جنگ میں شرکت کی جس سے ملک کو نقصان ہوا۔ معیشت کو سہارا دینے کے لئے مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ ہماری درآمدات بڑھ گئیں جبکہ برآمدات کم ہوئیں۔ کرونا کی وجہ سے ہماری معیشت کو ایک بار پھر بہت بڑا دھچکا لگا، لیکن مثبت پالیسیوں کی وجہ سے منفی معیشت سے 5 فیصد تک مثبت گروتھ کی۔ ہماری معیشت کی گروتھ نہیں ہوتی۔ ہماری درآمدات اور برآمدات میں بہت بڑا فرق ہے جو اس وقت 40 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ ہماری اکانومی کی پیداواری صلاحیت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسٹمز میں بھی اربوں روپے کی غلط انوائسنگ ہوتی ہے۔ اس کے بعد یوکرائن کا مسئلہ آگیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں اضافے کے بعد اس وقت جو شرح بنتی ہے اس لحاظ سے پٹرول کی قیمت 240 روپے ہونی چاہیے۔ ترسیلات زر اور گروتھ سے بہتری آئے گی حالات ٹھیک رہیں گے، ہمارا مسئلہ صرف مہنگائی ہے جو عالمی رجحان ہے۔ ہم نے چین کو کہا ہے کہ 10 ملین نوکریاں پانچ سال میں ہمیں دیں، ہم نے چین کو زراعت کے حوالے سے مدد کرنے کا کہا ہے، ہم نے چین سے ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری کے لئے بھی کہا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کومضبوط کرنے کے لئے ایسا روڈ میپ بنا رہے ہیں جسے آنے والی کوئی حکومت بھی ختم نہیں کرسکتی۔ غریب عوام کی محرومیاں ختم کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کررہے ہیں۔ خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ اب معاشی اعشاریئے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ ہم تین شعبوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن میں زراعت، برآمدات اور درآمدات میں توازن قائم کرنے اور بچت کی شرح شامل ہیں۔ ہماری شرح نمو ہر 4 سے 5سال بعد گر جاتی ہے، ٹیکس اصلاحات پر کام جاری ہے۔ حکومت کو بیرونی قرضے اتارنے کے لئے مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ میں نے 14شعبوں پر پلاننگ کروائی ہے تاکہ معیشت کو اوپر لے جایا جا سکے۔ آئی ٹی سیکٹر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس شعبہ میں گروتھ ریٹ 47فیصد تھی جورواں سال بڑھ کر 70فیصد جبکہ اگلے سال 100فیصد تک جانے کا امکان ہے۔ ہمارا مقصد غریب آدمی کو اپنے پائوں پر کھڑاکرنا ہے تا کہ انہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔