حقوق نسواں کا شور ان دنوں میں ہر سال ہی برپا ہوتا ہے کچھ لوگ اس کے حق میں اور کچھ مخالفت میں اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ اپنے اپنے تجربات ہوتے ہیں اور اپنے اپنے مشاہدات جن کی بناء پر ہم اپنے نظریات بھی قائم کر لیتے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ عورت مارچ کے حوالے سے میرے بھی اپنے نظریات ہیں اور خدشات بھی ‘ جن کی وجہ سے عورت مارچ کے لئے نکلنے والیوں کے حق میں ‘میں نے کبھی زیادہ پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔ آزادی کے معنی ہم بے راہ روی تو لے بھی نہیں سکتے۔ خیر یہ بحث اور اس کی تفصیل تو طوالت مانگتی ہے۔ قطع نظریہ کہ ہر شخص اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنے نظریات قائم کرنے کا حق رکھتا ہے صرف یہ ہے کہ ان نظریات کا اپنا وزن اور اس وزن کے پیچھے دلیل ہو۔میں جب بھی گھر سے باہر نکلی یا کسی دوسرے شہر گئی مجھے عموما ًعورت ایک مناسب حد تک آزاد ہی نظر آئی‘ جائز آزادی تو حق بھی ہے لیکن اصل میں مسائل اور پریشانیاں تو گھروں کے اندر ہیں۔ ایسی ایسی کہانیاں اس چاردیواری کے اندر پرورش پاتی ہیں جو نہ تو کوئی بیان کرنے والا ہوتا ہے نہ ان کو سننے والااگر سن لے توعمل کرنے والا نہیں ،یہی المیہ ہے۔ میانوالی میں رونما ہونیوالا سانحہ ایسا ہے جس نے ہر اولاد اور دل رکھنے والے شخص کو
ایک تکلیف سے دوچار کیا ہے میں حیران ہوں کہ ہم انسانوں کے دیس میں رہتے ہیں کیا ہماری جہالت ہماری کم علمی ہماری کوتاہیاں اور ہمارے گناہ اتنے بھیانک اور اتنے بڑے ہو چکے ہیں جن کی معافی نہ دنیا میں ہے اور نہ ہی آخرت میں کوئی بخشش ہے ایک طرف ہم اولاد کیلئے ترستے ہیں درباروں پر دھاگے باندھتے اور قیمتی چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ خدا کے حضور سربسجود ہو جاتے ہیں اور دوسرا رْخ کتنا تاریک ہے ہم اسی اولاد کو کوڑے کے ڈھیر پر بھی پھینکتے ہیں اس کے گلے دبا کر مار دیتے ہیں گھروں کے اندر تشدد کرتے ہیں اور ظلم کی انتہا ہی کہیئے کہ سات دن کی بچی پر فائرنگ بھی کر سکتے ہیں۔ذرا بتایئے کہ اس درندگی کی کوئی مثال ہے ؟کیا یہی اصل میں وہ سفاکیت ہے وہ جہالت ہے جس کے خلاف ہمیں اٹھ کھڑے ہونا تھا اور اپنی جنگ لڑنی تھی۔ غیرت کے نام پر قتل ہو جاتے ہیں سلنڈر پھٹنے سے عورتیں مرتی رہی ہیں کبھی خود کشی کا روپ دیدیا جاتا ہے تو کبھی گھر سے بھاگ جانے کا کہہ کر کہانی ختم کر دی جاتی ہے۔اْمید کی کرن اس لئے بھی باقی ہے کہ تمام مرد اس ظلم و استبداد کا حصہ نہیں ہیں۔ تمام مرد ظالم اور قاتل نہیں ہیں یقین کیجئے بہت سے خواتین کے حقوق کے لئے جنگ لڑنے میں شریک ہیں میں نے بے شمار لوگوں کو بیٹی کی پیدائش پر خوشیاں مناتے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے بھی دیکھا ہے گھر میں عورت کا ہاتھ بٹاتے بھی اور ساتھی کے بچھڑ جانے پر آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے اگرچہ جس طرح کی آزادی کا مطالبہ عورت مارچ میں کیا جاتا ہے جس طرح کے نعرے لگائے جاتے ہیں جس طرح کے سلوگن تیار کئے جاتے ہیں میں آج بھی ان کے خلاف ہوں ‘ جس طرح میں نے کہا کہ تمام مردوں کے سچ اور نظریات مختلف ہیں اسی طرح ہر عورت کے لئے ان کی آزادی کا معیار بھی مختلف ہے اصل بات یہ ہے کہ کون کتنا آسودہ اور اپنے حال سے مطمئن ہے۔ آزادی کا نعرہ لگانے والوں کا اپنا طرز عمل ہے اس سے ہر عورت کو اتفاق ہے بھی نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے جس نے بتایا کہ صبح صاحب آزردہ تھے کہ ایک ماڈرن تعلیم لینے والے بچے کو اس کی ماں نے پہلا کلمہ تک نہیں یاد کروایا تھا آزادی ‘ سوچ اور نظریات ‘ مذہب کی خوبصورتی سے انکاری کیوں ہو جاتے ہیں جبکہ بطور مسلمان ہمیں ہماری ترجیحات یاد رہنی چاہئیں‘ آنحضرتؐ نے بے لوث اور بے پایاں محبت اپنی بیٹی سے ہی کی۔ بیویوں کے ساتھ شوہر کے فرائض اور محبت کی مثال ایسی قائم کی جس کے بعد کسی اور بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی ‘ عورتوں سے ہر کام میں مشورے بھی کئے ان سے حسنِ سلوک کی تلقین کی ان کو جنگوں میں اپنے ساتھ رکھا۔ماں کے ذکر پر آبدیدہ ہوئے۔ معاشرے میں جو ہو رہا ہے وہ تصور ہمارے ذہنوں اور ہماری سوچوں کا ہے مذہب ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم محض چند دن کی بچی کو گولیوں سے چھلنی کر ڈالیں ‘کیا ہمیں آخرت کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ہم اتنے پاگل اور پتھردل ہو چکے ہیں۔
ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آنا پھر ان والدین کی وفات کا دکھ برداشت کرنا دوسر ے گھر میں شوہر کی طرف سے کبھی اذیتوں کو برداشت کرنا تو کبھی اولاد کی بے رخی کی تکلیف کو سہنا عام ہو چکے ہیں لیکن یہ اندر کی طرف گرتے ہوئے آنسو کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اس کو اتنا سکون اور اتنی جائز آزادی ضرور دیجئے کہ اسے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے سڑکوں پر نہ نکلنا پڑے ان کی اتنی اچھی تربیت کیجئے کہ وہ شرمناک سلوگن لکھتے ہوئے زمین میں گڑ جائیں اس کو پرکھنے کا معیار اتنا سخت مت کیجئے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہی ہو کر رہ جائے ‘وہ ایک مکمل انسان ہے ذہانت سے بھرپور ہے آپ کی نسلوں کی پرورش کی ذمہ دار ہے ایک خوش اور آسودہ ذہن ہی اولاد کی مکمل اور بہترین پرورش کر سکتا ہے اسے بندوق کی گولی نہیں پیار کی بولی اور تحفظ کی ضرورت ہے ‘ رحم کیجئے تاکہ آسما ن والا آپ پر رحم کر سکے۔
٭…٭…٭