خواتین کھلاڑیوں کیلئے اچھی غذا بہت ضروری ہے

ماہر غذائیات فاطمہ کاظمی کا کہنا ہے کہ بہتر کارکردگی کے لیے خواتین کھلاڑیوں کے پاس اچھی غذا کا ہونا ضروری ہے اگر اچھی غذا کو نہر انداز کیا جائے تو بالخصوص بین الاقوامی اقر بالعموم قومی سطح کے مقابلوں میں کھلاڑی کے لیے حقیقی صلاحیتوں کا اظہار مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ توانائی بحال کرنے کے لیے زیادہ کھانا ضروری ہے، جب کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ کھائیں گے تو وزن بڑھ جائے گا۔ بنیادی طور پر ان سب معاملات میں توازن پیدا کرنے اور بہتر غذا کی اہمیت اور ٹریننگ پلان کو بہتر انداز سے ترتیب دینا بہت اہم ہے۔ آپ ہر وقت ہر چیز استعمال نہیں کر سکتے، خواتین کھلاڑیوں کے لیے غذا پر توجہ دینا اور بھی اہم ہے۔ جب آپ بہتر غذا لیں اور ٹریننگ پر سمجھوتا نہ کریں تو دیکھنے میں بھی اتھلیٹ لگتے ہیں۔ اگر خواتین کھلاڑیوں کی توانائی کے حوالے سے بات کریں تو یہاں کچھ معیار اور پیمانے تو مقرر کر دیے گئے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر انسان کی جسمانی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہی ڈائٹ اور ٹریننگ پلان پر پوری ٹیم کا عمل کرنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح انفرادی کھیلوں میں بھی ہر کھلاڑی کو ایک ہی ڈائٹ پکان نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کوئی ماہر غذائیات ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ کس کھلاڑی کی کتنی کیلوریز روزانہ کی بنیاد پر برن ہونی چاہییں اور اسے کس قسم کی غذا کی ضرورت رہتی ہے۔ توانائی کی بحالی کے لیے بہتر غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انجریز سے نجات حاصل کرنے اور مکمل فٹنس کی بحالی کے لیے بھی مختلف غذا کی ضرورت رہتی ہے۔ توانائی اور انجریز سے نجات کے لیے خوراک مختلف ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔
 کاربوہائیڈریٹس، آئرن، وٹامنز سب چیزوں کا توازن نہایت اہم ہے۔ حتیٰ کہ پانی کا مناسب استعمال بھی اہمیت کا حامل ہے۔ خواتین کے لیے آئرن کی مناسب مقدار نہایت اہم ہے اگر اس پہلو کو نظر انداز کیا جائے تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کھلاڑی ٹریننگ، پریکٹس پر سمجھوتا کرے تو اس کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی غذائی ضروریات پورا کیے بغیر بھی بہتر کھیل اور نتائج ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں اس پہلو پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی اور خواتین کے پاس تو کھیل کے مواقع بھی کم ہیں پھر انہیں ٹریننگ کی اچھی سہولیات بھی نہیں ملتیں اس صورتحال میں اگر وہ غذائی ضرورت کو بھی نظر انداز کریں تو دنیا کا مقابلہ مشکل ہے۔ سٹیمنا برقرار رکھنا ہے، توانائی کی بحالی اہم ہے پھر کھلاڑیوں نے میچ کے دوران بہت زیادہ دباؤ برداشت کرنا ہوتا ہے، بین الاقوامی سطح پر دباؤ کی شدت میں بیپناہ اضافہ ہو جاتا ہے ان حالات میں صرف بہتر غذا ہی اتھلیٹس کو تیار کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کم عمری سے ہی سکول کی سطح پر بچوں کو بہتر غذا کے حوالے آگاہی دینے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین ایتھلیٹس کی فزیکل فٹنس عالمی معیار کی نہیں ہے کسی بھی کھیل میں ہم دیکھتے ہیں تو دنیا کے دیگر ممالک اور ہماری پلیئرز میں اس حوالے سے واضح فرق نظر آتا ہے۔ بہتر فزیکل فٹنس کے بغیر مسلسل بہتر پرفارم کرنا مشکل ہوتا ہے، اگر فزیکل فٹنس بہتر ہو گی تو کھلاڑیوں کی قوت فیصلہ بھی بہتر ہوتی ہے۔ اگر اتھلیٹس پراپر انرجی ڈائٹ نہیں لے رہے ہوتے تو اس سے جسم آئرن کی کمی ہو جاتی ہے اور بون ماس کم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے جسم میں ملک اور واٹر کی کمی بھی پوری نہیں کر رہے ہوتے تو یہ چیز خواتین کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کے بہتر مستقبل کے لیے قومی و بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ سکول، کالج، یونیورسٹی اور صوبائی سطح پر بھی غذائی ضروریات کا خیال رکھنے اور وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن