حافظ محمد عمران
آسٹریلوی ٹیم 24 برس بعد پاکستان آئی لیکن راولپنڈی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں جس طرح دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے مردہ وکٹ بنائی، دلچسپی سے عاری پہلے ٹیسٹ میچ میں ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کرکٹ کھیلنے ، دیکھنے ، کرکٹ پر لکھنے اور بولنے والوں کو بہت مایوس کیا۔ راولپنڈی کی ایسی پچ شاید ہی کسی نے دیکھی ہو لیکن تبدیلی کے اس دور میں اچھے بھلے سٹیڈیم کو بھی ڈی میرٹ پوائنٹ کا منفی درجہ مل چکا ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک مردہ وکٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیوں کیا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کی موجودگی میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے فیصلہ سازوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس پر چلتے ہوئے کسی کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ایسی کرکٹ سے نہ تو کھیل کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے نہ ہی سپانسرز کے لیے کوئی کشش ہوتی ہے اور نہ ہی سٹیڈیم آ کر دیکھنے والوں یا پھر ٹیلی ویژن کے ذریعے کھیل سے جڑے رہنے والوں کے لیے کوئی کشش باقی رہتی ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ، بولا جا چکا اور آئندہ بھی اس حوالے سے بات چیت ہوتی رہے گی۔ لوگ حیران پریشان ہیں کہ رمیض راجہ جو کہ چیئرمین بننے سے پہلے ایسی سست کرکٹ ، غیر نتیجہ خیزاور دلچسپی سے عاری کرکٹ کے سب سے بڑے ناقد رہے ہیں اُن کی موجودگی میں ایسی مردہ وکٹ کیسے بن گئی پر چوبیس سال بعد ہونے والی تاریخی سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کا مزہ کرکرا کر دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیض راجہ کا موقف ہے۔ بورڈ چیئرمین فرماتے ہیں کہ آسٹریلیا کے خلاف تیز پچوں پر نہیں کھیلنا چاہتے۔ ہوم گرائونڈ پر کھیلیں تو اپنی طاقت سے کھیلنا چاہئے۔
قارئین کرام! یہ وہی رمیض راجہ ہیں جو پاکستان میں ڈراپ ان پچز کے فلسفے کو بیان کر رہے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ہر پچ پر آسٹریلیا کی طرز کا بائونس موجود ہو لیکن جب آسٹریلیا کے خلاف کھیلنے کی بات آتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ کینگروز کے خلاف تیز پچوں پر نہیں کھیلنا چاہتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟ آپ تیز پچ بھلے نہ بنائیں ایک اچھی پچ تو تیار کر سکتے ہیں۔ ایک ایسی پچ جس میں بیٹرز کے لیے بھی رنز موجود ہوں اور بائولرز بھی بے بس نظر نہ آئیں۔ ایسی پچ کی تیاری کے لیے کسی کو بیرون ملک سے بلوانے کی ضرورت نہیں ہے پاکستان کے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو کراچی، ملتان، فیصل آباد، پشاور، لاہور اور راولپنڈی میں مختلف طرز کی پچز بنانے میں ماہر ہیں۔ حال ہی میں پاکستان سپرلیگ کے ساتویں ایڈیشن کا انعقاد ہوا ہے اور دنیا نے دیکھا ہے کہ ہمارے گرائونڈ سٹاف نے کتنی بہترین پچز بنائیں۔ کیا ہم ان لوگوں سے ٹیسٹ میچز میں یہ کام نہیں لے سکتے تھے بہرحال یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہوم سیریز میں کوئی بھی پچ میزبان ٹیم کے کپتان، ٹیم انتظامیہ اور چیئرمین کرکٹ بورڈ کی مرضی کے بغیر تیار نہیں ہو سکتی اور جب چیئرمین رمیض راجہ جیسا کرکٹر جو کہ پاکستان کا سابق کپتان بھی ہو اور وہ یہ تسلیم بھی کرے کہ وہ ’’ون مین شو‘‘ ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسی سست اور بلے بازوں کی جنت وکٹ تیار کر دی جائے جہاں دونوں ٹیموں کے بائولرز بے بسی کی تصویر بنے نظر آئیں۔
کرکٹ کو پسند کرنے والے یہ توقع کر رہے ہیں کہ آج شروع ہونے والا دوسرا ٹیسٹ میچ راولپنڈی سے مختلف ہو گا اور پچ کی تیاری کے حوالے سے گرائونڈ سٹاف کو پہلے میچ جیسی ہدایات جاری نہیں کی گئی ہوں گی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد حفیظ کہتے ہیں کہ میں پہلا ٹیسٹ میچ دیکھ رہا تھایہ ہم کس قسم کی کرکٹ کھیل رہے ہیں یہ ڈیڈ کرکٹ ہے اگر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو کوئی ایسی کرکٹ دیکھنے میں دلچسپی نہیں لے گا۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سلو وکٹ ہے لیکن گیند ٹرن تو ہو۔ ایسی پچ پر دوسری ٹیم بہت بُرا کھیلے تو نتیجہ نکلتا ہے۔ پہلے ٹیسٹ کے دوسرے دن تک یہ نظر آ رہا تھا کہ میچ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا اس کا مطلب یہ ہے کہ 24 سال ہونے والی اس تاریخی ٹیسٹ سیریز کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ راولپنڈی میں پاکستان کا ٹیسٹ دیکھ رہا تھا سکرین پردوں کی شکل میں لگی ہوئی تھی۔ ہمارے آج بھی جو نیٹ ہو رہے ہیں وہ بانسوں کی شکل میں لگے ہوئے ہیں ہوا چلتی ہے تو بانس ہلتے ہیں ہم نے نہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی باتیں ہم نے بڑی بڑی کیں جو ڈومیسٹک سٹرکچر ریویمپ کیا وہ ہم ڈویلپ نہیں کر سکے۔ کون لوگ ہیں جن کو یہ ذمہ داریاں دی گئیں وہ تو اپنی مدت پوری کر کے چلے گئے اور بغیر احتساب کے چلے گئے۔ پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ بہتر نہیں ہو سکا۔ پاکستان کا کھلاڑی آج تک معاشی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ کرکٹ جو کہ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اسے ہم اچھے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے جب بھی بات کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اس پر بعد میں بات ہو گی۔ کب بات ہو گی یہ سب کون کرے گا۔ ابھی تک مقابلے سے بھرپور کرکٹ کا کوئی جال نہیں بچھایا گیا اگر کوئی بچہ سکول سے کرکٹ شروع کرتا ہے تو بلند ترین سطح پر پہنچنے کے لیے کیا راستہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ گزشتہ چار برس سے تو میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ سابق چیئرمین احسان مانی نے جو وعدہ کیا تھا اس حوالے سے عملی طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آئی نہ تو کھیل کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نہ ہی کھلاڑیوں کے مالی مستقبل کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین رمیض راجہ کے ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اقدامات پر فی الحال کوئی بات نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے کچھ اچھا ہوتے نہیں دیکھا۔ انہیں کام کرتے ہوئے چھ سے آٹھ ماہ ہوئے ہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا کچھ روایتی بیانات ضرور آئے ہیں جو کہ شائقین کو متحرک کرنے کے لیے اچھے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں مل رہا دو پورٹ ایبل پچز کی بات ضرور ہوئی ہے لیکن یہ پچز پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔ احسان مانی اور وسیم خان صرف موجیں کرتے رہے ہیں گزشتہ بیس پچیس برس سے جو لوگ موجود ہیں ان سے کچھ نہیں ہو رہا انہیں تبدیل کریں نئے لوگوں کو لائیں پلیئر کے دو میچوں پر ان کی کارکردگی کا احتساب ہوتا ہے اور جو لوگ برسوں سے ایڈمنسٹریشن میں ہیں ان کا احتساب کیوں نہیں ہوتا، ایڈمنسٹریٹر بھی جوابدہ ہے میں ملازمت کا خواہش مند نہیں ہوں اور اللہ سے ’’جاب سیکر‘‘ نہ بننے کی دعا کی ہیں میں دو، پانچ یا پچاس لاکھ کے لئے کام نہیں کرنا چاہتا۔ آپ نے ویلیو ایڈ کرنی ہے اگر کھیل کھلاڑیوں اور آنے والی نسل کی بہتری اور ملک کا نام روشن کرنے کا موقع ملا تو ضرور کروں گا لیکن اس کے لیے اختیار اور آزادانہ سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی ایڈمنسٹریٹر کے لیے تین چیزیں بین الاقوایم سطح پر تعلقات، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور کھلاڑیوں کی ویلفیئر بہت ضروری ہے اگر کوئی ایڈمنسٹریٹر یہ نہیں کرتا تو وہ صرف موجیں کرنے آیا ہے موجیں کرنی ہیں اور چلے جانا ہے جیسا کہ ماضی میں کئی آئے ۔ لوگ احتساب کے بغیر چلے جاتے ہیں۔ ملک میں بیس ، پچیس برس کے دوران بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ لوگ آتے ہیں اور موجیں کر کے چلے جاتے ہیں۔