ممتاز محقق اور نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری

Mar 12, 2023

سید روح الامین....برسرمطلب

سیّد روح الامین

2004ئ￿ میں اْردو زبان کے حوالے سے اپنی پہلی کتاب ’’اْردو ہے جس کا نام‘‘  جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کو بھی ارسال کی۔ ایک ہفتے کے اندر ہی اْن کی طرف سے خط کی صورت میں جواب ملا۔ دو صفحات پرمشتمل تحریر فرمان فتح پوری صاحب نے ان شاندار الفاظ میں پذیرائی کی کہ خط کو بار بار پڑھتا رہا اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ پھر اْس تحریر کو دوسری کتاب ’’اْردو، ایک نام محبت کا‘‘ میں بطور دیباچہ شامل کر لیا۔ اْن کی طرف سے باقاعدہ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ فرمان فتح پوری ادب کی دْنیا میں بہت ہی بڑا نام ہے اس کے باوجود انکساری آپ کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ پھر کراچی جا کر مِلنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اْن دِنوں انجمن ترقی اْردو کے جریدے ’’قومی زبان‘‘ اور ’’اخبارِ اْردو‘‘ اسلام آباد میں میری کتابوں پر تبصرے متواتر شائع ہوتے تھے۔ ’’قومی زبان‘‘ میں یہ فریضہ محمد احمد سبزواری صاحب سرانجام دیتے تھے تو اْنہوں نے میری ایک کتاب کے تبصرے میں لکھ دیا ’’کہ سیّد روح الامین  اْردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہوا یْوں کہ جب میں کراچی فرمان فتح پوری صاحب کے دفتر میں داخل ہوا تو ڈاکٹر صاحب بڑے تپاک سے گلے مِلے۔ بہت ہی زیادہ خوشی کا اظہار فرمایا۔ قومی زبان کا مذکورہ پرچہ اْن کے سامنے میز پر پڑا تھا۔ جِسے دیکھ کر  ڈاکٹر صاحب بے ساختہ فرمانے لگے کہ بیٹا پریشان نہ ہوں اْنہوں نے ٹھیک لکھا ہے۔  آپ نے ابھی بہت کام کرنا ہے۔ میری دْعا ہے کہ آپ ادب کی دْنیا میں زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ کافی باتیں ہوتی رہیں۔ انشائ￿ اللہ تعالیٰ کتابی صورت میں تفصیل سے لکھوں گا۔ فرمانے لگے بیٹا آنے والے مو رخ نے یہ نہیں دیکھنا کہ روح الامین کی کِس کِس کے ساتھ دوستی تھی اور کن سے ملاقاتیں کرتا تھا۔ اْس نے لکھنا ہے کہ  کام کیا ہے؟ بس آپ کام کرتے جائیے۔ یہ کام ہی انسان کو زندہ رکھتا ہے۔ فرمانے لگے کہ جو خْود کام نہیں کر پاتے وہ دوسروں کو بھی کرنے سے حیلے بہانوں سے روکتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے آپ نے کسی کا جواب بھی نہیں دینا۔ پھر آپ راستے سے ہٹ جائیں گے، منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی باتیں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ بوجوہ تفصیل سے لکھنا مناسب نہیں کیوں کہ میرا مقصد کسی کی بھی دلآزاری نہیں ہے۔ کراچی میں اْن سے تین ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر بار اپنی کتابوں کا تحفہ ضرور دیتے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب نے میری چھ کتابوں کے لیے ابتدائیے تحریر فرمائے۔۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب ادب کا ایک روشن ستارہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں (۱) ادبیات و شخصیات (۲) اْردو املا اور رسم الخط (۳) اْردو غزل نعت اور مثنوی (۴) اْردو نثر کا فنی ارتقا (۵) اْردو کی نعتیہ شاعری (۶) اْردو، قومی یکجہتی اورپاکستان (۷) اقبال سب کے لیے (۸) قومی زبان و دیگر پاکستانی زبانیں (۹) ہندی اْردو تنازعے (۱۰) اْردو فکشن کی مختصر تاریخ (۱۱) اْردو شاعری کا فنّی ارتقاء  (۱۲) اْردو کی بہترین مثنویاں (۱۳) اْردو منظوم داستان (۱۴) اْردو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری (۱۵) نیا اور پْرانا ادب (۱۶) زبان اور اْردو زبان وغیرہ شامل ہیں۔
علامہ نیاز فتح پوری نے رسالہ ’’نگار‘‘ جو آگرہ سے شروع کیا اس کو جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی سرپرستی میں جاری رکھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی اِن علمی و ادبی خدمات کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر صاحب کو ۱۹۸۵ء میں سول اعزاز ’’ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ کریم ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔ آمین!
 اَب اْنہیں ڈھونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر

مزیدخبریں