چودھری محمد سرور سے چند سوالات!!!!!


چودھری محمد سرور آج باقاعدہ اور باضابطہ طور پر پاکستان مسلم لیگ ق کا حصہ بن رہے ہیں اس سے پہلے وہ مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی گورنری کے مزے لے چکے ہیں۔ چند برسوں کی متحرک سیاست میں یہ ان کی تیسری سیاسی جماعت ہے۔ ایک ایسے وقت میں وہ مسلم لیگ ق کا حصہ بن رہے ہیں جب یہ جماعت دو گھروں سے بھی نکل چکی ہے یعنی چودھری پرویز الٰہی بھی الگ ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں وہ کوئی غیر معمولی کام کر سکیں گے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا البتہ وہ جن عزائم کے ساتھ چودھری شجاعت حسین کے ہمسفر بن رہے ہیں ان کی ذمہ داری بھی بڑھے گی اور انہیں ماضی کی نسبت زیادہ سنجیدہ رویے کا بھی اظہار کرنا ہو گا۔ اب کی بار فرق یہ بھی ہے کہ جس جماعت میں وہ جا رہے ہیں اس بارے یہ علم نہیں ہے کہ وہ حکومت میں ہو گی یا نہیں ہو سکتا ہے انہیں اپوزیشن میں جانا پڑے اور یہ ان کے لیے بہت مختلف تجربہ ہو گا کیونکہ وہ مسلم لیگ نون میں گئے تو گورنر بن گئے وہاں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو پھر گورنر پنجاب بن گئے مسلم لیگ ق میں ایسے حالات دکھائی نہیں دیتے۔
امکان ہے کہ آج دوپہر میں کسی وقت وہ اپنی تیسری سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان کریں گے اس حوالے سے جب سابق گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی کا ہر لمحہ پاکستان اور اپنے ملک کے کے عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے خرچ ہوگا میں مسلم لیگ ق میں کسی عہدے، وزارت یا کسی بھی قسم کے سیاسی یا ذاتی فائدے کی خاطر شامل نہیں ہو رہا۔ میں اس جماعت میں اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں۔ اس جماعت کو پاکستان کی سب سے بہتر، متحرک، مضبوط اور پاکستان کی تعمیر اور ترقی کے لیے کام کرنے والی جماعت بنانے کا خواہشمند ہوں۔میں اپنے تمام سیاسی دوستوں،درد دل رکھنے والے نمایاں سیاستدانوں اور ان تمام لوگوں کو جو ملک و قوم کی کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور ہمارا ساتھ دیں۔ پاکستان کی تعمیر اور ملک کی ترقی کیلئے باہر سے سے کوئی نہیں آئے گا یہ کام ہم سب نے مل جل کر کرنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ق کا وزیراعظم ہو یا صوبائی اور قومی اسمبلی میں صرف ایک ایک رکن، اس سے فرق نہیں پڑتا اگر کسی چیز سے فرق پڑتا ہے تو وہ ملک و قوم کے لئے سیاسی مفادات کو قربان کرنے کا جذبہ ہے۔ اگر ہم ملک و قوم کے لیے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کریں تو یقینی طور پر پاکستان کے نا صرف مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ غربت بے روزگاری سمیت تمام بنیادی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔ میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو یہ دعوت دیتا ہوں ہو کہ وہ سیاسی نفرتوں کو ختم کریں سیاسی انتشار کو ختم کریں اور پاکستان کی حقیقی معنوں میں خدمت کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ دفاعی طاقت کو بڑھانے کے لیے دفاعی اداروں کا ساتھ دیں۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے سیاست دانوں اور کاروباری افراد کو ذاتی مفادات کو قربان کرتے ہوئے ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر جمع ہونا پڑے گا اوورسیز پاکستانیوں کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنے ملک کی خدمت کریں سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پاکستان کے لیے کام کریں۔تین نکاتی ایجنڈا بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں
پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ہماری درآمدات میں اضافہ اور صنعتی انقلاب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جب تک صنعتوں کی ترقی نہیں ہو گی برآمدات میں کمی نہیں ہو گی اور دنیا میں ہماری معیاری مصنوعات نہیں جائیں گی خود مختاری کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے میں تمام وسائل بروئے کار لاوں گا اور ہر جگہ خود جا کر بیرونی دنیا کو قائل کرنے کی کوشش بھی کروں گا اندرونی طور صنعتکاروں کو درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے بامعنی اور بامقصد کوششوں پر توجہ دی جائے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری اور ان کے سرمائے کی حفاظت کے لیے تمام بااختیار لوگوں کے پاس ملک کے وسیع تر مفاد میں جاوں گا۔ صنعتی ترقی، درآمدات میں اضافہ اور بیرون ملک پاکستانیوں کا اپنے ملک میں کاروبار پر اعتماد یہ تین چیزیں ہی پاکستان کا مستقبل بہتر بنا سکتی ہیں اور یہ تمام چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں یہی میرا ہدف ہے اور میرا منشور میرے پاکستان کا بہتر مستقبل ہے۔
چودھری محمد سرور کی باتیں تو اچھی ہیں سوچ بھی مثبت ہے لیکن جب وہ عملی سیاست شروع کریں گے تو سوالات ہوں گے۔ 
انہوں نے مختصر وقت میں دو سیاسی جماعتوں سے علیحدگی اختیار کی ہے وہ کس طرح لوگوں کو اپنی بدلتی ہوئی سیاسی سوچ پر قائل کریں گے۔ کیا لوگ سوال نہیں کریں گے کہ وہ کیسے دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو ق لیگ میں شمولیت کے لیے قائل کریں گے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ سیاسی لوگ مقبول سیاسی جماعت میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس وقت عوامی مقبولیت میں پی ٹی آئی سب سے بہتر دکھائی دیتی ہے۔ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ق پر کوئی وزن نہیں ہے لیکن سیاسی حلقے تو یہ سمجھتے ہیں کہ ق لیگ تو خود ایک ایسا بوجھ ہے جسے کوئی اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیا یہ سوال نہیں ہو گا کہ مسلم لیگ ق نے ہر دور میں سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے اتحاد کیے۔ اس وقت ان کا ایک دھڑا پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسرا دھڑا پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے دیتے پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں نائب وزیراعظم کا عہدہ بھی لے چکے ہیں کیا لوگ نہیں جانتے کہ ان کے شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے کیا خیالات تھے لیکن اتحاد ہوا اور عہدہ بھی کیا گیا اسی طرح نون لیگ کے ساتھ بھی گذشتہ دو دہائیوں سے جو تعلقات رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپے نہیں۔ ان حالات میں چودھری محمد سرور سے بہت سوالات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے چند ماہ عملی سیاست سے الگ رہ کر بہت ساری چیزوں کو دیکھا ہے کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مسلم لیگ ق کیسے بنی اور کیسے ایک الیکشن جیتنے کے اگلے الیکشن میں ہار گئی۔ کیا وہ ایک ایسی سیاسی جماعت سے کچھ نیا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن