نو مئی 2023ء ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ کا اہم ترین دن ثابت ہوا ہے جس نے بلاشبہ پاکستان کی سیاست کا رخ بدل دیا پھر اب رواں سال 8 فروری تو اہم تھا ہی، 9 فروری کو بھی تحریک انصاف اہم دن ثابت کرنا چاہ رہی ہے جب بقول ان کے انتخابی نتائج کو بدلا گیا پھر 9 مارچ کا دن بھی اہم بن گیا جب آصف علی زرداری دوسری بار ملک کے بطور صدر انتخاب کے ساتھ ملک میں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ مکمل ہوگیا لیکن اس 9 مارچ سے پورے دو سال پہلے ایک 8 مارچ بھی آیا تھا جو بنیاد بنا دو سال کے دوران ہونے والے اہم ترین واقعات کا، 8 مارچ 2022ء امریکہ میں پاکستانی سفیر ایک خفیہ سفارتی مراسلہ بھیجتے ہیں جس میں وہ امریکی نمائندہ خصوصی سے ہونے والی اپنی الوداعی ملاقات کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی عمران خان کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے عمران خان جنہیں تحریک عدم اعتماد میں شکست صاف دکھائی دینے لگتی ہے تو وہ اس خفیہ سفارتی دستاویز سے ‘‘کھیلنے’’ کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر انہوں نے اس خفیہ دستاویز سے جسطرح کھیلا وہ سب کے سامنے ہے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی شاید اتنی بڑی نہیں تھی جتنا بڑا اسے خان صاحب نے اپنے جارحانہ فیصلوں اور بیانات سے بنادیا۔ فوجی قیادت پر جلسوں میں سربراہ حکومت ہوتے ہوئے تنقید شروع کردی اور حکومت سے جانے کے بعد تو ان کی تنقید میں ہر روز شدت آتی چلی گئی۔ 2014ء کے دھرنے کی بات یاد آتی ہے جب خان صاحب کو سارے راستے بند ہوتے دکھائی دے رہے تھے امیدیں دم توڑ رہی تھیں تو خان صاحب اپنے کارکنوں کو یہ بتایا کرتے تھے کہ وہ انتظار میں ہیں کہ حکمران کوئی غلطی کریں معلوم نہیں وہ حکمرانوں سے کس قسم کی غلطی کی امیدیں لگا بیٹھے تھے لیکن اس وقت کی حکومت نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی جس کا عمران خان کو فائدہ ہوتا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران اور حکومت چھن جانے کے بعد غلطیوں پہ غلطیاں کیں یہ اور بات ہے کہ وہ آج بھی ان غلطیوں کو ماننے کو تیار نہیں اور ان کے چاہنے والوں کے تو کیا کہنے وہ تو ان کی بڑی بڑی غلطیوں کو کپتان کا سرپرائز کہہ کر سر دھنتے رہے اور اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔حکومت جانے پر خان صاحب نے جسطرح امریکہ پر الزمات لگائے فوج پر کھل کر تنقید کی وہ سب تو اپنی جگہ لیکن کوئی سیاست کو سمجھنے والا حکومت جانے کے بعد ان کے اسمبلیوں سے استعفیٰ کو کسی بھی طرح درست نہیں سمجھتا تھا لیکن خان صاحب نے کسی کی نہ سنی،بعد میں انہیں احساس ہوا کہ بڑی غلطی ہوگئی پھر لاکھ ہاتھ پاؤں مارے لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا آگے چل کے اپنے کچھ قریبی ساتھیوں کے لاکھ سمجھانے پر بھی انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑ دیں بعد میں اس غلطی کا بھی شدت سے احساس ہوا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور 8 مارچ 2022 کے بعد کی پے در پے کی غلطیوں اور فوج مخالف حکمت عملی نے انہیں 9 مئی تک پہنچا دیا ان کی پارٹی بطور جماعت 8 فروری کے انتخابات سے باہر ہوگئی اور پھر ایک 9 مارچ آیا جب خان صاحب کے وہ مخالف جنہیں دو سال پہلے اپنی بندوق کی شست پر کہا کرتے تھے ملک کے طاقتور عہدوں پر براجمان ہوگئے۔ شہباز شریف نے حکومت سنبھالی اور چند روز بعد آصف زرداری نے بھی خود کو ایک بار پھر سب پے بھاری ثابت کردیا اس میں کوئی شک نہیں خان صاحب کے جذباتی اور یکطرفہ فیصلوں نے انہیں اور ان کی جماعت کو یہاں تک پہنچایا اگر وہ 8 مارچ 2022ء کے بعد اپنے فیصلوں میں تحمل اور اجتماعی دانش کے اصولوں کو مدنظر رکھتے،حکومت کی آئینی تبدیلی پر سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے،اسے تسلیم کرتے ،اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھرپور اپوزیشن کرتے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخالفت کو ذاتی انا نہ بناتے،سائفر پر کھیل کر دنیا کو خود سے دور نہ کرتے تو شاید 9 مارچ 2024ء مختلف ہوسکتا تھا۔ آج وہ تمام تر اعتراضات کے باوجود اسمبلیوں میں بیٹھ گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اچھے بچے بننے کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں امریکہ سے تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے بھاری رقم دے کر لابنگ کروا رہے ہیں یہ سب غلطیوں کا اعتراف نہ سہی احساس ضرور ظاہر کرتا ہے لیکن شاید 8 مارچ 2022ء اور 9 مارچ 2024ء کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔انتخابات متنازعہ ،مینڈیٹ چوری،نہیں مانیں گے،نیا سال الیکشن کا سال ہوگا جیسے بیانات کارکنوں کی تسلی کیلئے دئیے جاتے رہیں گے یہ بھی کہا جاتا ہے گا کہ سسٹم نہیں چلے گا لیکن سسٹم چلانے والے سسٹم چلائیں گے باقی سب باتیں ویسے ہی ہیں جیسے لڑائی کے بعد یاد آنیوالا مکا۔