خالدسعید صاحب کی عمر کا زیادہ ترحصہ ملتان اورلاہور میں گزرا۔ملتان میں پیدا ہوئے،ملازمتی اموربھی زیادہ تر اسی شہرمیں انجام دئیے، شہرِاولیا میں ہی انتقال کیا اورتدفین بھی وہیں ہوئی ،لیکن لاہور کو وہ کچھ اس طرح یاد کرتے تھے کہ اس طرح تو شایدمرزاغالب نے بھی کلکتے کو نہ کیا ہوگا۔خالد صاحب نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے پاس کیا جس کے بعد وہ لاہورمنتقل ہوگئے۔انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور نفسیات میں ایم اے کیا۔ فلسفے اور پنجابی میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔1969ء میں گورنمنٹ کالج ریلوے روڈ لاہور سے اپنے کیریئر کاآغاز کیا۔ضیاء الحق کامارشل لاء نافذ ہواتو ایک ناکردہ گناہ کی سزاکے طورپر ان کا تبادلہ بہاولنگر کے علاقے حاصل پور کردیا گیا،چندسال بعدوہ واپس اپنے شہر آگئے، ان کی ملازمت کا بقیہ تمام عرصہ ایمرسن کالج ملتان اوربہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان میں تدریسی فرائض انجام دیتے گزرا۔پروفیسر خالد سعیدمرحوم عمر علمی بزرگی کے باوجود ’’رندِ پارسا‘‘ تھے،میں ان کی علمی وادبی حیثیت سے کسی حدتک مرعوب تھا لیکن جب بھی ملاقات ہوتی،ان کی آنکھوں میں ایک ’’ادب آمیزچمک ‘‘دیکھتا۔ایک دن مجھ سے رہانہ گیا۔پوچھ ہی لیا،کہنے لگے،’’ایک توآپ کا تعلق میرے سسرالی شہر سے ہے دوسرا مجھے آپ میںاپنے ایک مرحوم بھائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔ اس موقع پرانھوں نے مجھے معروف داغستانی شاعر رسول حمزہ توف کے ایک شعر بھی ترجمہ سنایا:
اور اسی غم میں مری آنکھ کاگوشہ تر ہے
اب مری عمرمرے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے
مجھے ابتدائی طور پر ملتان شہرکے ایک نجی تعلیمی ادارے میں اردو پڑھانے کا موقع ملا۔وہاں بسکٹی رنگ کی پرانے ماڈل کی سوزوکی ایف ایکس کارپر ایک بھاری مونچھوں والا سمارٹ سا آدمی ’’کاروباری اخلاقیات‘‘(business ethics ) جیسا مضمون پڑھانے آتا،اس گیٹ اپ میں وہ مجھے حکیم نطشے کی طرح کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دیتا۔تعلیمی اداروں میں ایک خاص قسم کا وضع کردہ ماحول ہوتا ہے۔اصل میں خالد سعیدصاحب کی شخصیت کے مخفی اسرار بعدمیں ان کے ساتھ ہونے والی نجی محفلوں میں کھلے۔خالد سعید گورنمنٹ کالج لاہور کے ذہین طلبہ میں شمارہوتے تھے۔وہ اپنے استاذگرامی ڈاکٹر محمداجمل مرحوم سے بہت متاثر تھے۔ملتان میں قیام کے دنوں میں ان سے اکثر ملاقاتیں رہیں۔خالدسعید چین سموکر تھے۔وہ پرنسٹن کا سافٹ پیک سگریٹ پیتے تھے اور نوجوانوں کے ساتھ کھل کر مکالمہ کرتے تھے۔ یہ برانڈ ان سے منوبھائی نے متعارف کروایا تھا۔ سگریٹ کایہ برانڈ اور آزاد مکالمہ ان دنوں یہ دونوں کمیاب تھے۔ میرا شعری مجموعہ’’نیلے چاند کی رات‘‘شائع ہوا، برادرمکرم ڈاکٹروحیدالرحمان خان نے رضا ہال (ضلع کونسل ہال) میں اس کی تقریب رونمائی منعقدکی۔ اس تقریب کی صدارت ڈاکٹراسلم انصاری صاحب نے کی۔پروفیسر خالدسعید نے میرے جیسے مبتدی کی کتاب پرشاندار مضمون پڑھا۔ان دنوں خالدسعید سے ہونے والی ملاقاتیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔پچھلی صدی کی آخری دہائی میں وہ خاصے متحرک تھے۔انہوں نے نصف صدی میں بہت سی نوجوان نسلوں کی تربیت کی۔ یوں تو وہ رسمی طور پر نفسیات کے استادتھے لیکن ان کے حلقۂ تدریس میں فلسفہ، نفسیات، معاشریات، ادب، تعلیم اور سیاسیات جیسے مضامین شامل تھے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ کثیرتعداد میں موجود ہیں جو دوسروں کو تو درویشی کا درس دیتے ہیں لیکن ان کی پرآسائش زندگیاں ان کی بے عملی بلکہ بدعملی کی دلیل ہوتی ہیں۔خالد صاحب حقیقی معنوں میں درویش تھے۔ان کے سینے میں ایک پرندے کا سا نرم دل تھا۔ایک استاد کے طور پروہ کلاسیکی روایت کا عمدہ نمونہ تھے۔سچ پوچھیں تو وہ سرتاپا علم ودانش کے خزانے بانٹنے والے ایک بدھا تھے۔’’رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبو آئے‘‘کے مصداق ان کی گفتگو ایک وضع دار اور مخلص انسان ہونے کی دلیل تھی۔ ہمیں خالد سعید کی نظمیں اورتراجم سننا،ان کے ساتھ گپ شپ کرنا،ان کی مجالس میں بیٹھنا بہت اچھا لگتا تھا۔یہ الگ بات کہ مجھے اس کاموقع بہت کم ملا۔ابھی میں نے تذکرہ کیا تھا کہ خالدسعیدصاحب بہت نرم دل اوربے ضرر انسان تھے۔ہم نے ان کے دوستوں کی زبانی سنا ہے کہ ایک رات ان کے گھر چار ڈاکو گھس آئے اوردونوں میاں بیوی کو یرغمال بنالیا۔ہم سب ڈاکوؤں کی نفسیات سے خوب آگاہ ہیں۔ ڈاکو جس روپ میں بھی ہوں نسل ِ ہلاکو سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں سے ایک ڈاکو تو بڑی صاف اورشفاف اردو بولنے والا تھا۔اس کا لب ولہجہ بڑا شستہ تھا،گویا ابھی دہلی کے لال قلعے کے نواح میں موجود ٹکسال سے ڈھلا ڈھلایا،بنابنایا وجود میں آیا ہے۔اہلیہ نے شورمچانے کی کوشش کی تو ان ظالموں نے انھیں زخمی بھی کردیا لیکن خالد سعید نے ان کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو جاری رکھی۔اس میں پس منظری طور پران کے شر سے محفوظ رہنے کی کوشش بھی ہوگی۔جاتے ہوئے وہ شقی القلب لوگ ان کا قیمتی سازوسامان اورنقدی لوٹ کر لے گئے۔ان کے عزیزوں اورشاگردوں نے ایف آئی آر درج کروائی۔کچھ عرصے بعد مجرم گرفتار ہوگئے۔شناخت پریڈ کے دوران اردو داں ڈاکو اپنے لہجے سے پہچانا گیا۔پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے اسے مشورہ دیاکہ’’بیٹا ! اگر تم اردو میں ایم اے کرلیتے تو آج ڈاکو ہونے کی بجائے پاکستان کی کسی جامعہ کے شعبہ اردو کے سربراہ ہوتے‘‘۔آج میں سوچتا ہوں تو یہ نصیحت بڑی کارآمد محسوس ہوتی ہے۔ خالدسعید صاحب نے بڑا شاندار علمی وادبی سرمایہ بطوریادگار چھوڑا۔ان کی بہت سی کتابیں منظرعام پرآئیں۔ان کا زیادہ ترکام عالمی ادب کے تراجم پر مشتمل ہے۔اہم کتابوں میں’’ اوریانہ فلاشی کے مصاحبوں کے تراجم‘‘،’’تاریخ سے مکالمہ‘‘،’’خط اس بچے کے نام کوکبھی پیدا نہیں ہوا‘‘ ،’’بالشتیے سن!‘‘اور ’’تمھارے پیر مرمریں‘‘قابل ذکرہیں۔ان کی تحریروں کا ایک بڑا حصہ تاحال اشاعت سے محروم ہے۔وہ ان لوگوں میں شما رہوتے تھے جو اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں۔خالد سعید سرطان جیسے موذی مرض سے لڑتے لڑتے عدم آباد کورخصت ہوئے۔ان کی عمر تقریباََ پچھتربرس تھی لیکن اخیرعمر تک ان کے جذبے توانا اور جوان رہے۔مرتے دم تک لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ہماری دنیا میں اب ایسے لوگ نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم نے معاشرتی طور پر ’’ترقی ِ معکوس ‘‘کا سفر جاری رکھا ہے۔حسینان ِ عنبر ذوائب کی قدر ہے،بڑے بڑے دماغ خودساختہ ملک بدری کی نیت کیے بیٹھے ہیں۔مسخرے خاصوں میں شامل ہیں اوراہلِ نظر آشفتہ حالی کی زندگی بسرکرتے ہیں۔ہمیں شخصیت سازی کا فریضہ ہنگامی بنیادوں پرادا کرنا ہوگا۔