تاریخ کا ایک ورق 

یاغستان کئی علاقوں پر محیط ہے۔کوہستانی زبانوں میں ’’یاغی‘‘ سرکش اورباغی کو کہتے ہیں۔لہٰذا یاغستان کا مطلب ’’سرکشتان‘‘ ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں برطانوی راج کے مخالف مجاہدین کے زیر کنٹرول وہ علاقے جو آج کے خیبرپختونخوا کے سوات، دیر، کوہستان، ہزارہ، چمرکند اورافغانستان کے صوبہ کنڑ پر مشتمل تھے ’’یاغستان‘‘ کہلاتے۔ انعام اللہ مزید لکھتے ہیں کہ یاغستان صرف مجاہدین کے زیرکنٹرول علاقہ نہیں تھا، اس میں وہ تمام دشوارگذار علاقے شامل تھے جن کی جغرافیائی خصوصیات اور مقامی لوگوں کے مخصوص مزاج کی وجہ سے ان میں حکام رٹ قائم کرنے سے قاصر رہتے تھے۔ ان علاقوں میں ، انڈس کوہستان، چلاس، استور اور تانگیر سے لے کر موجودہ ضلع تورغر تک کا یہ سارا علاقہ یاغستان تھا۔ ’’سرکش لوگوں کا علاقہ‘‘ یہ کبھی جغرافیائی اکائی نہیں رہی بلکہ ہر وہ علاقہ ’’یاغستان‘‘ کہلایا جو کسی حکومتی عملداری میں نہ آتا تھا۔ لہٰذا گلگت سے لے کر افغانستان تک کے شمالی پاکستان کے بعض علاقوں کے علاوہ بھی یاغستان موجود تھے۔ اس لحاظ سے ہر’’علاقہ غیر‘‘ یاغستان ہی کہلایا۔
یاغستان میں سرکاری ملازم شیخ اکرم صدیقی کواغوا کرکے لے جایا گیا۔انہوں نے 1912ء اپنے اغوا اور اس دوران سختیوں کی دلدوز داستان کو کتابی شکل دی۔فقیر ایپی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔فقیر ایپی یاغی تھاوہ مزاحمت استعارہ بنا۔ انگریز سرکارکیخلاف برسرِِ پیکار رہا۔تقسیم کے بعد پشتونستان تحریک کا سرگروہ بن کے ایک عرصہ پاکستان کیخلاف ہتھیار بند رہا۔پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بھارتی اورافغان حکمرانوں نے اسے استعمال کیا۔زندگی کے آخری دنوں میں پاکستان کیخلاف اْٹھائے ہتھیار حجرے میں لٹکا دیئے گئے۔1890ء کی دہائی میں شمالی وزیرستان کے ایک بڑے قبیلے اتمان زئی کی شاخ بنگال خیل میں پیدا ہونے والے میرزا علی خان کوئی سیاسی شخصیت تھے اور نہ ان کا کوئی عسکری پس منظر تھا بلکہ وہ ایک عام سی مذہبی شخصیت تھے جو اس زمانے کی روایت کے مطابق دینی تعلیم کے حصول کے بعد بنوں اور رزمک کے درمیان ایپی کے مقام پر ایک مسجد کے پیش امام بنے۔ایپی ان کے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔اس نے قبائلی وعلاقائی روایتی غیرت کی خاطر انگریز سرکار کیخلاف علمِ جہد بلند کیا۔آج ہم بات کرتے ہیں ان گوروں کی جو اس کے مقابلے میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔
میرزا علی خان وزیر المعروف فقیر ایپی اور برطانوی فوج کے مابین تنازع نے میوہ رام کی بیٹی رام کوری کے مسلمان ہو کر بنوں کے سید امیر نور علی شاہ سے شادی کرنے سے جڑ پکڑی۔ رام کوری کا اسلامی نام اسلام بی بی رکھا گیا۔ لڑکی کی ماں کی طرف سے معاملہ عدالت لے جایا گیا۔ عدالت نے لڑکی والدین کے حوالے کر دی۔ عمائدین نے لڑکی کی اس کے خاوند کو واپسی پر زور دیا۔ مگر نہ صرف لڑکی کی واپسی نہ ہوئی بلکہ امیر نور علی کو سزا بھی ہو گئی۔ اس سے وزیرستان میں غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔جرگہ ہوا اور فقیر ایپی نے سرکار کے خلاف ہتھیار اٹھالئے۔1936ء￿ میں بنوں سے شروع ہونے والی جنگ نے جنوبی وزیرستان کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ اس معرکہ میں جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل نے فقیر ایپی کا ساتھ دیا۔ اوائل جنگ میں انگریزسرکار نے دو ڈویژن فوج روانہ کی۔ شروع میں4دن کی جھڑپوں میں 20انگریز مارے گئے۔ لڑائی میں فضائی قوت بھی استعمال ہوئی۔ جنگ میں قبائلی بھی کام آئے،20کو گرفتار کیا گیا۔ اگلے سال اپریل میں باغیوں نے شہور تنگی(جنوبی وزیرستان) میں قافلے پر حملہ کر کے53 فوجیوں کو پیوندِ خاک کر دیا۔ ان میں میجرٹینڈال اور کیپٹن بائیڈ سمیت سات افسرشامل تھے۔ ان سب کو ضلع ٹانک کے علاقے منزئی کے قلعہ میں دفن کیا گیا۔یہ قلعہ اٹھارہویں صدی میں دو سو ایکڑ پر تعمیرکیاگیا۔تقسیم کے بعد ملیشیا فورس کے پاس تھا، آج کل ایف سی کے تسلط میں ہے۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق اس لڑائی میں ایک ہزار کے قریب انگریز فوج کے وابستگان جبکہ 35 یاغی ہلاک ہوئے۔ایپی کو گرفتار کرنے کی ہرممکن کوشش بے سود رہی۔
ایپی کی کامیابی کی وجہ سینہ بہ سینہ پھیلنے والی مبالغہ آمیز داستانیں تھیں۔24 جون 1937ء کو ارسال کی جانے والی برطانوی حکام کی انٹیلیجنس رپورٹ میں دلچسپ تذکرہ کیا گیا:۔ قبائلیوں کو یقین ہے، فقیرکو قدرت نے غیر معمولی طاقت عطا کر رکھی ہے۔ اْس کے چھاپہ مار ساتھی درخت کی چھڑی اسے پیش کرتے ہیں تو وہ اسے بندوق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر وہ چند روٹیوں کو ڈھانپ دے تو یہ پورے لشکر کی کیلئے کافی ہوتی ہیں۔ جہازوں سے گرائے جانے والے بم روئی کے گالوں میں بدل جاتے ہیں۔ایسے تصورات اور قصے کہانیوں سے اسے تقدس حاصل ہو گیا۔ اسے جنگجو کے علاوہ دیومالائی روحانی شخصیت کا درجہ بھی دیا جانے لگا۔اسی بنا پرقبائلی عوام کا تعلق بھی اس پر غیر متزلزل ہوگیا۔ مزید جھڑپیں اور ہلاکتیں ہوتی رہیں۔ جن میں مرنے والے گوروں کو منزئی کے اس قبرستان میں لا کر دفنایا جاتا رہا۔ منزئی قلعہ گویا قبرستان بن گیا۔ انگریز فوجیوں کا قبرستان۔ گورا قبرستان۔ آج9دہائیاں گزرنے کو ہیں۔ اس دوران کئی قبریں مٹ گئیں ، بے نشاں ہوگئیں یا بیٹھ گئیں، مگر43اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اسی علاقے کے دلاور خان وزیر نے آرٹیکل میں لکھا کہ قبروں کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ قبرستان شاید مکمل طور پر بے نشان ہو جاتالیکن قلعہ کے اندر اور مزید براں چاردیواری کی وجہ سے محفوظ ہے۔ خستہ حالی کے باوجود کئی کتبوں کی عبارت واضح پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ قبرستان آخر کار کب تک وقت کے بے رحم تھپیڑوں کا مقابلہ کرسکے گا؟۔ عدم توجہی کے باعث یہ بے نشاں ہو جائے گا۔
انگریز اپنے ورثے کا ہی نہیں اپنے وابستگان کا، ان کی معاشی ضروتوں تک کابھی خیال رکھتے ہیں۔ منزئی کے گورا قبرستان سے کیسے صرفِ نظر ہوگیا؟۔ کرسچن ٹرنر پاکستان میں ہائی کمشنر رہے۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین تعلقات کو نئی جہتیں دینے کیلئے کردار بخوبی نبھاتے رہے۔ شاہی خاندان کے اہم افراد کے دوروں کا اہتمام تک کیا۔ اب ان کی جگہ جین میرٹ ہائی کمشنر تعینات ہوچکی ہیں۔ ان کا زبردست سفارتی کیریئر ہے۔بڑی انرجیٹک ہیں۔ یقینا اپنے پیشر وکی طرح پاکستان اوربرطانیہ کے تعلقات میں مزید قربتوں کے لیے کردار ادا کریں گی۔ وہ ایک کام گورا قبرستان کی بحالی اور تحفظ کے لیے بھی کریں۔ حالیہ دنوں فقیر ایپی کے مزار کی تزئین کی گئی۔ پاک فوج کی طرف سے مزار کے ساتھ میوزیم بنایا گیاہے۔ہلاکتیں دونوں طرف ہوئیں۔قبائلی اپنی غیرت پر کٹے ،گورے وطن کی خاطر مرے۔ جین میرٹ منزئی گورا قبرستان تشریف لے جائیں ، قبروں کی زبوں حالی دیکھیں۔ اپنے وطن کی خاطر لڑنے والوں کو خراج عقیدت پیش کریں۔ ہر قبر کا فریم سیدھا کرائیں۔جس سے خاک نشینوں کی روحوں کو تسکین ملے گی اور یہ ایک یادگارسیاحتی مقام بھی بن سکے گا۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن