صدارتی الیکشن سے قبل زرداری نے اپنی بیٹیوں کے ماتھے چومے۔
صدارتی الیکشن میں پولنگ سے قبل ووٹ ڈالتے جاتے ہوئے آصف علی زرداری نے مہمانوں کی گیلری میں بیٹھی اپنی بیٹی آصفہ، بختاور اور اپنے داماد کو گلے لگا کر جس محبت سے ان کے ماتھیچومے گالوں پر بوسہ دیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ باپ بالآخر باپ ہوتا ہے۔ اسے اپنی بیٹیوں سے محبت ہوتی ہے باپ خواہ زرداری ہو یا کوئی بے زر سب کے دل میں بیٹیوں کی چاہت چھپی رہتی ہے۔ اس کا ایک اچھا تاثر گیا عوام تک۔ اس سے قبل مریم نواز نے بھی وزیر اعظم کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے دن گیلری میں آصفہ زرداری سے خود جا کر ملاقات کی اسے گلے لگایا یہ بھی ایک خوشگوار لمحہ تھا۔ دلوں میں کتنی کدورتیں کیوں نہ ہوں جب انسان کسی سے گلے ملتا ہے تو یہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب نئے صدر مملکت کو چاہیے کہ وہ پورے ملک کی بیٹیوں کو آصفہ اور بختاور سمجھیں ان کے سروں پر بھی اپنا دست شفقت رکھیں اور انہیں احساس دلائیں کہ صدر مملکت ان کا بھی باپ ہوتا ہے۔ اس طرح ان کی عزت و احترام میں بھی اضافہ ہو گا اور خواتین میں تحفظ کا احساس بھی بیدار ہو گا۔ اس وقت ہمارے کمزور طبقات کی خواتین خاصی بری حالت میں ہیں ان کو اس محرومیوں بھری زندگی سے نجات دلانے کے لیے انہیں ظالم معاشرے کے مظالم سے بچانے کے لیے اگر صدر مملکت اپنی ساری توانائیاں وقف کر دیں تو سب سے بڑا کام یہی ہو گا۔ باقی رہی سیاست تو وہ چلتی رہتی ہے۔ اسے بھی چلاتے رہیں۔
٭٭٭٭٭
مریم نواز نے میرے قتل کے لیے سپاری دیدی ہے۔ شیرافضل مروت
اب اگر بحالت ہوش و حواس یہ بات مروت کر رہے ہیں تو یہ خاصی خوفناک بات ہے۔ سیاسی جنگ کو اتنی حد تک آگے جانا نہیں چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مریم نواز کو بظاہر تو مروت سے کوئی مسئلہ بھی نہیں وہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ شیرافضل مروت نے جس طرح ا یک بھارتی کا نام لے کر کہا ہے کہ اسے ایک لاکھ ڈالر دئیے گئے ہیں کہ وہ مجھے قتل کرے تو اس کا ان کے پاس یقینا کوئی نہ کوئی سورس تو ہو گا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں ایسا الزام لگایا ہے جو خاصہ خطرناک ہے۔ حالات کے مطابق وہ ابھی اس لیول پر نہیں پہنچے ہیں کہ ایسا کوئی کرے۔ اگر یہ بات عمران خان یا شاہ محمود قریشی یا پھر علی امین گنڈا پور کی طرف سے کی جاتی تو کچھ لوگ یقین کر لیتے مگر بات وہی کہ مریم نواز نے ایسا کیا ہے۔ یہ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوتی۔ اگر ہے تو بھارتی سے کیا رابطہ کر کے خود کو بدنام کرنا ضروری تھا۔ یہاں ہمارے ہاں تو ایک عام مالشیا اگر بالاچ ٹیپو جیسے شیروں کے مالک کو بھرے شادی ہال میں محافظوں کی موجودگی میں قتل کر سکتا ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے کہ ایسے کاموں کے لیے بھارتی قاتلوں کو زحمت دی جائے۔ بے شک آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ بالاچ کے قتل سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کی سختی کی وجہ سے شوٹرز کم ہو گئے ہیں یعنی کرائے کے قاتل اب دستیاب نہیں مگر اس کا مطلب یہ کب ہے کہ ملتے نہیں۔ بہرحال سیاست میں اتنا آگے جانے، کسی کی جان لینے کی ہر بات، ہر حرکت غلط ہے۔ اس طرح تشدد اور انتشار کی راہ ہموار ہوتی ہے، امن کی نہیں۔
٭٭٭٭٭
محمود اچکزئی کو بلوچستان سے کوئی ووٹ نہیں ملا
یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔ محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت کے لیے لمحہ فکریہ بھی کہ آخر کیا بات ہے۔ یہ دوسرا الیکشن ہے جب ان کی جماعت کو اپنے صوبے میں وہ کامیابی نہیں ملی جو عام طور پر الیکشن میں ملنے کی امید ہوتی ہے۔ کیا لوگوں کا مزاج بدل گیا ہے یا پختونخواہ میپ کا عوام سے رابطہ کٹ گیا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی بلوچستان کے سیاسی ماحول میں آئی ہے۔ صرف میپ ہی نہیں بی این پی کے دونوں دھڑوں کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہی ہوا ہے۔ بلوچ آبادی میں چلیں متعدد سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں الیکشن میں شامل ہوتی ہیں ان کے ووٹ بٹتے ہیں۔ مگر پشتون آبادی میں تو میپ اور جے یو آئی کے علاوہ لے دے کر اے این پی ہی نظر آتی ہے مگر یہاں بھی اس بار ووٹروں نے منقسم رائے دی۔ یہی حال بلوچ ووٹروں کا بھی رہا۔ کیا یہ کسی تبدیلی کا اشارہ ہے یا لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے اپنی پرانی سیاسی جماعتوں پر اور وہ بھی جیتنے والے گھوڑوں پر شرط لگانے لگے ہیں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں۔ بہرحال اب لگتا ہے کہ
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا۔
کے مصداق بہت سی تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔ اب معلوم نہیں اس کا کریڈٹ پی ٹی آئی کو جاتا ہے یا نون لیگ کو یا پھر پیپلز پارٹی کو۔ انہوں نے بہتر انداز میں سیاسی گیم کھیلی اور بلوچستان جیسے صوبے میں جو روایتی سرداری نظام والے قبائلی معاشرے والاہیمیں ایک نئے انداز سیاست کی بنیاد رکھی۔ اب وہاں نواب خان میر اور سردار بھی بڑی منظم وفاقی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہو کر سیاسی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو یہ محمود اچکزئی کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ صرف مخالفت برائے مخالفت اور نفرت کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محبت اور مفاہمت کی سیاست سے دلوں کو جیتا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
دکانداروں نے سرکاری ریٹ ہوا میں اڑا دیئے
یہ کون سی نئی بات ہے، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر سال ذخیرہ اندوز ،تاجر اور دکاندار مافیا اسی طرح رمضان المبارک میں روزے داروں کا جینا مشکل کر کے خود کو جنت کے مستحق قرار دیتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے ان جاہلوں کی ادنیٰ سوچ پر دوسروں کی زندگی جہنم بنانے والے یہ مافیا کس امید پر جنت کی امید رکھتے ہیں۔ کیا عوام کی جیب سے ناجائز طریقے سے پیسے نکلوا کر رمضان کے آخر میں یا شوال کے ماہ میں عمرہ یا بعد میں حج کرنے سے ان کے یہ کرتوت معاف ہو جائیں گے جبکہ حقوق العباد پر تو سخت پکڑ ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کریم کے بندوں کا معاملہ ہے جو زیادتی اور ظلم کا نشانہ بنتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے۔ ان کا حساب کتاب خود اللہ کریم لیتے ہیں اور اس حاکم اعلیٰ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے مافیاز اس گرفت سے بے خوف ہو کر اس مقدس رحمتوں والے مہینے میں بھی عوام کو لوٹنے سے باز نہیں آتے اور ہر چیز مہنگی کر دیتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہو رہا ہے۔ انتظامیہ کے تمام تر اعلانات کے باوجود کوئی اس پر کان نہیں دھر رہا۔ چاروں صوبوں میں ہاہا کار مچی ہوتی ہے۔ اشیائے خورد و نوش ، پھل اور سبزیاں 100 فیصد مہنگی کر دی گئیں ہیں۔ ہر ریڑھی ہر دکان کے الگ الگ ریٹ ہیں۔ یہ سب مہنگائی کا طوفان انہی لوگوں کا لایا ہوا ہے جو خود بھی مسلمان ہیں اور ان میں سے بیشتر روزہ بھی رکھتے ہیں۔ اب حکومتیں لاکھ رمضان پیکج لائیں اس کا فائدہ چند لوگوں تک تو ہوتا ہے مگر عوام کی اکثریت فوائد سے محروم رہتی ہے کیونکہ انہوں نے بازار سے سب کچھ خریدنا ہوتا ہے جہاں مہنگائی کا راج ہوتا ہے…
٭٭٭٭٭
منگل، 1445ھ،12 مارچ 2024ء
Mar 12, 2024