پیپلز پارٹی کا انکارکیوں؟

 پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا حصہ نہ بننے کا اعلان کردیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اور سیکریٹری فنانس پیپلزپارٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا  ’ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے، ہم اگر کابینہ میں شامل نہیں تو کس حیثیت میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کریں۔
پیپلز پارٹی  ساتھ نہ دیتی تو مسلم لیگ نون مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔مرکز میں مخلوط حکومت ہے پیپلز پارٹی اس کا اس کے باوجود حصہ ہے کہ اس کی طرف سے وزارتیں لینے سے انکار کیا گیا ہے۔جس طرح پیپلز پارٹی کے بغیر مسلم لیگ نون مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتی تھی اسی طرح وہ پیپلز پارٹی کے بغیر پالیسی سازی بھی نہیں کر سکتی۔اگر پالیسیاں نہیں بنیں گی تو حکومت چلے گی کیسے؟آصف علی زرداری مسلم لیگ نون کا ساتھ دیے بغیر پاکستان کے صدر کیا بن سکتے تھے ؟جو آج مسلح افواج کیسپریم کمانڈر بھی ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق کئی صوبوں میں پیپلز پارٹی کو گورنر شپ بھی دی جانی ہے۔مسلم لیگ نون کے رہنما عرفان صدیقی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی اگر غلبے میں شامل ہونا چاہتی ہے تو پھر ملبے کا بھی اس کو حصہ بننا پڑے گا۔عرفان صدیقی غلبے  کواگر حلوہ کہتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔پیپلز پارٹی 14 ماہ تک مسلم لیگ نون کے ساتھ حکومت کا حصہ رہی انتخابی مہم کے دوران اس نے  ناکامیوں کا ملبہ مسلم لیگ نون پر ڈال دیا۔یہ تو حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر ساتھ چلنا بڑا ورنہ دست وگریبان ہونے  تک  نوبت  آجاتی۔مانڈوی والا کے بیان سے نظر آتا ہے کہ ایک بار پھر آئندہ کے لیے ویسا ہی بنایاجا رہا ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے پہلے ہی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔پیپلز پارٹی بھی اسی ڈگر پر چلے گی تو کس کی خدمت کر رہی ہوگی؟۔انتخابات کے بعد اکٹھا چلے ہیں تو پھر اب  سیاسی سودو زیاں کے چکر میں نہ پڑیں۔  قومی اور ملکی مفاد میں فیصلے کریں.مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کہتا ہے آپ آمدن بڑھائیں،  ٹیکس پیئرز بڑھائیں اور ریونیو کلیکشن ٹھیک کریں۔ آئی ایم ایف کے مطالبات غلط نہیں ہوتے،مانڈوی والا اگر یہ باتیں تسلیم کرتے ہیں تو پھر حکومت کے ساتھ مل کر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے میں کیا قباحت ہے ؟

ای پیپر دی نیشن