جناب حمید نظامی کی برسی پر ’’کچھ یادیں۔ کچھ باتیں‘‘ کے عنوان سے میرے تاثرات یکم دو اور تین مارچ کو ایک طویل آرٹیکل کی صورت میں شائع ہوئے۔ اس میں میں نے اپنی جنرنلزم کلاس میں ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ کے موضوع پر موصوف کے ایک خصوصی لیکچر کا حوالہ دیا تھا۔ آج اپنے Notes اور یادداشت کے بل بوتے پر ذرا تفصیل سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔
یہ 1953-54ء کی بات ہے میں نے پنجاب یونیورسٹی میں جنرنلزم کی ڈپلومہ کلاس میں داخلہ لیا۔ (ایم اے کلاسز بعد کی بات ہے)۔ ایوننگ کلاس تھی۔ طلباء دن کو اپنے کاروبار یا ملازمت کرتے تھے۔ میں نے لا ء کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور کسی دفتر میں نوکری بھی کرتا تھا۔ جنرنلزم کلاس کے پرنسپل ملک عبدالقیوم تھے مگر ہماری کلاس شروع ہونے تک ڈاکٹر عبدالسلام خورشید بطور پرنسپل چارج لے چکے تھے۔
آپکی دلچسپی کیلئے بتائوں کہ ہماری کلاس میں 30 کے قریب لڑکے اور صرف دو گرل سٹوڈنٹس تھیں۔ ا س وقت پنجاب یونیورسٹی لاء کالج پورے پنجاب میں قانون کی تعلیم کا واحد ادارہ تھا۔ دوسرے اداروں میں بھی قریب قریب یہی حال تھا۔ ہماری ایف ای ایل کی کلاس میں بھی دو گرلز سٹوڈنٹس تھیں اس زمانے میں اخبارات میں روزنامہ امروز غالباً پہلا اخبار تھا جس میں محترمہ رخشندہ حسن جو اس زمانے میں رخشندہ غلام علی تھیں کام کررہی تھیں۔ میں آج کے دور کا تقابل کررہا ہوں۔ میں نے 1988ء میں گوجرانوالہ ڈویژن سے پنجاب بار کونسل میں الیکشن میں حصہ لیا جو آج 6 اضلاع پر مشتمل ہے۔ سارے ڈویژن میں صرف ایک لیڈی ایڈووکیٹ محترمہ و عزیزہ ثمینہ زریں صدیقی تھیں۔ جنہوں نے گوجرانوالہ کے پولنگ سٹیشن پر اپنے امیدوار کا بیج لگاکر سارا دن کنویسنگ کی اور اسے کامیاب کراکے چھوڑا۔ آج اس ڈویژن میں خواتین وکلاء کی تعداد کا تو پورا علم نہیں تاہم گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پر یہ تعداد 115 سے کراس کررہی ہے۔
بات ہورہی تھی جناب حمید نظامی کے تاریخی لیکچر کی انہوں نے فرمایا کہ کائنات میں ایک ارتقائی عمل جاری ہے جو منظر آج ہم دیکھ رہے ہیں کل اس میں تبدیلی آچکی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ہر نیا دن نئی شان سے طلوع ہوتا ہے۔ یہاں جمود کی گنجائش نہیں۔ بت پرستی سے اسی لیے منع کیا گیا۔ انہوں نے کہا آپ ایک تین سال کا بچہ دیکھتے ہیں۔ دوبارہ 12 سال بعد اسے دیکھنے کا موقع ملتا ہے بلاشبہ یہ لڑکا اسی بچے کا ترقی یافتہ وجود ہے مگر کتنی تبدیلی بلکہ تبدیلیاں آچکی ہوتی ہیں۔ اسکی ضروریات بھی مختلف ہوچکی ہیں۔ آپ اس کو تین سال والے بچے کا لباس نہیں پہنا سکتے۔ معاشرے میں ارتقاء کے ساتھ قوانین میں بھی ارتقائی عمل جاری رہنا چاہیے جو لوگ 12 سال بعد بھی اس لڑکے کو 3 سالہ بچے کی شکل و صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ آپ ان کو کیا کہیں گے۔
جناب حمید نظامی نے فرمایا دنیا کے تمام مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کا ابتدائی دور جو بمشکل 30‘ 32سال پر محیط تھا۔ ایک جمہوری دور تھا بلاشبہ اس زمانے میں ابھی رسمی ادارے وجود میں نہیں آئے تھے لیکن اس نظام حیات میں سلطانی جمہوری۔ انسانی مساوات‘ مذہبی رواداری‘ ٹالرنس‘ احترام آدمیت اور حریت فکر و نظر کے بدیہی تقاضے پورے ہورہے تھے۔
اسکے بعد مسلسل دور ملوکیت رہا۔ شاید یہ اسلامی تعلیمات کے اثرات تھے کہ متعدد مسلم سلاطین اور بادشاہ اپنے زمانے کے دیگر بادشاہوں کی نسبت مذہبی رواداری اور اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کیلئے مشہور ہوئے۔ مشہور مورخ پروفیسر ٹوئن بی نے یونہی تو نہیں لکھ دیا تھا کہ ’’انسانی مساوات کا دعویٰ تو بہت سی تہذیبوں اور مذہبوں نے کیا لیکن دنیا کی تاریخ میں اسلام وہ واحد ثقافت ہے جس نے اس پرعمل پیرا ہوکر دکھایا ہے مگر مسلسل دور ملوکیت نے تقلید جامد کو رواج دیا اور یہ دور مسلمانوں کے ہمہ جہت زوال کا دور ثابت ہوا۔ اس دور میں جو شریعت پروان چڑھی اس میں شہری کہاں ہے اور ان کے بنیادی حقوق کہاں؟ خدا خدا کرکے انحطاط و غلامی کی سیاہ رات ختم ہوکر صبح آزادی میں تبدیل ہوئی ہے۔ فرمانے لگے۔ اب صرف انہی احکام کو شرعی قرار دینا جو کسی مخصوص دور میں اس زمانے کے مخصوص حالات میں ترتیب پائے۔ اجتہاد کے دروازے مستقل مقفل کرنے کے مترادف ہے۔ کہنے لگے فرض کریں۔ ہمارا اولین جمہوری دور ہی آج تک جاری و ساری رہتا تو کیا اس میں ارتقاء کا عمل نہیں ہونا تھا؟ یقینا ہونا تھا اگر یہ درست ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جو دنیا کی مثالی جمہوریت آپ برطانیہ کلاں میں دیکھتے ہیں ہماری جمہوریت کی شکل و صورت (بادنیٰ تصرف) اس کے مماثل نہ ہوتی۔
جناب حمید نظامی نے اپنے خطاب کے آخر میں علامہ اقبال کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں انکے مشہور خطبہ صدارت (جس میں مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا نظریہ پیش کیا) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علامہ نے اس خطبہ میں یہ صراحت فرما دی تھی کہ نئے وطن میں نظام جمہوری ہوگا جس میں تھیوکریسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور علامہ نے انفرادی کی بجائے منتخب پارلیمان کے ذریعے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا۔
(نظامی صاحب کا خطاب ختم ہوا۔ پرنسپل صاحب کی اجازت کے باوجود کسی طالب علم کو کوئی سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی)
جن دوستوں کی سوئی آج بھی فقہی موشگافیوں پر مبنی غیرمدون شریعت پر اڑی ہوئی ہے ان سے گزارش ہے کہ وہ شریعت بادشاہوں اور امرا طبقے کی ضرورت تھی۔ وہاں شہری نہیں ہوتے تھے اور رعایا کے حقوق کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس دور کے بیسیوں دلچسپ فیصلے پیش کرکے اپنے موقف کی وضاحت کرسکتا ہوں۔
جہاں تک مولانا صوفی محمد کا تعلق ہے وہ اپنے موقف میں سچے ہیں وہ بلاشبہ تین سال کے بچے کو بارہ سال بعد بھی ہو بہو اسی شکل و صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ وہ شریعت میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے پیوند اور روشن خیالی کی ملاوٹ کیخلاف ہیں اگر مولانا صوفی محمد فرماتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران میں بھی صحیح شریعت نافذ نہیں ہے تو انکے نقطہ نظر کے مطابق وہ سچ ہی کہتے ہیں۔
نوٹ: میں ان دنوں کالاباغ کے حوالے سے ایک کتاب کی تصنیف و تالیف میں مصروف ہوں لہٰذا چند ہفتے غیرحاضری کی معذرت قبول کریں۔ مجھے یاد آرہا ہے ایک شاعر کی بیگم ہسپتال میں تھیں ڈاکٹر نے افسردہ لہجے میں شاعر کو فون پر اطلاع دی کہ افسوس ہے کہ آپ کی بیگم صرف دو دن کی مہمان ہیں فون بند ہوا تو شاعر زیرلب بڑبڑایا۔ جہاں اس کم بخت کو 50 سال برداشت کیا ہے چلو دو دن اور سہی ۔ آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں آپ کی غیرحاضری کو سالوں برداشت کیا چند ہفتے اور سہی۔
یہ 1953-54ء کی بات ہے میں نے پنجاب یونیورسٹی میں جنرنلزم کی ڈپلومہ کلاس میں داخلہ لیا۔ (ایم اے کلاسز بعد کی بات ہے)۔ ایوننگ کلاس تھی۔ طلباء دن کو اپنے کاروبار یا ملازمت کرتے تھے۔ میں نے لا ء کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور کسی دفتر میں نوکری بھی کرتا تھا۔ جنرنلزم کلاس کے پرنسپل ملک عبدالقیوم تھے مگر ہماری کلاس شروع ہونے تک ڈاکٹر عبدالسلام خورشید بطور پرنسپل چارج لے چکے تھے۔
آپکی دلچسپی کیلئے بتائوں کہ ہماری کلاس میں 30 کے قریب لڑکے اور صرف دو گرل سٹوڈنٹس تھیں۔ ا س وقت پنجاب یونیورسٹی لاء کالج پورے پنجاب میں قانون کی تعلیم کا واحد ادارہ تھا۔ دوسرے اداروں میں بھی قریب قریب یہی حال تھا۔ ہماری ایف ای ایل کی کلاس میں بھی دو گرلز سٹوڈنٹس تھیں اس زمانے میں اخبارات میں روزنامہ امروز غالباً پہلا اخبار تھا جس میں محترمہ رخشندہ حسن جو اس زمانے میں رخشندہ غلام علی تھیں کام کررہی تھیں۔ میں آج کے دور کا تقابل کررہا ہوں۔ میں نے 1988ء میں گوجرانوالہ ڈویژن سے پنجاب بار کونسل میں الیکشن میں حصہ لیا جو آج 6 اضلاع پر مشتمل ہے۔ سارے ڈویژن میں صرف ایک لیڈی ایڈووکیٹ محترمہ و عزیزہ ثمینہ زریں صدیقی تھیں۔ جنہوں نے گوجرانوالہ کے پولنگ سٹیشن پر اپنے امیدوار کا بیج لگاکر سارا دن کنویسنگ کی اور اسے کامیاب کراکے چھوڑا۔ آج اس ڈویژن میں خواتین وکلاء کی تعداد کا تو پورا علم نہیں تاہم گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پر یہ تعداد 115 سے کراس کررہی ہے۔
بات ہورہی تھی جناب حمید نظامی کے تاریخی لیکچر کی انہوں نے فرمایا کہ کائنات میں ایک ارتقائی عمل جاری ہے جو منظر آج ہم دیکھ رہے ہیں کل اس میں تبدیلی آچکی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ہر نیا دن نئی شان سے طلوع ہوتا ہے۔ یہاں جمود کی گنجائش نہیں۔ بت پرستی سے اسی لیے منع کیا گیا۔ انہوں نے کہا آپ ایک تین سال کا بچہ دیکھتے ہیں۔ دوبارہ 12 سال بعد اسے دیکھنے کا موقع ملتا ہے بلاشبہ یہ لڑکا اسی بچے کا ترقی یافتہ وجود ہے مگر کتنی تبدیلی بلکہ تبدیلیاں آچکی ہوتی ہیں۔ اسکی ضروریات بھی مختلف ہوچکی ہیں۔ آپ اس کو تین سال والے بچے کا لباس نہیں پہنا سکتے۔ معاشرے میں ارتقاء کے ساتھ قوانین میں بھی ارتقائی عمل جاری رہنا چاہیے جو لوگ 12 سال بعد بھی اس لڑکے کو 3 سالہ بچے کی شکل و صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ آپ ان کو کیا کہیں گے۔
جناب حمید نظامی نے فرمایا دنیا کے تمام مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کا ابتدائی دور جو بمشکل 30‘ 32سال پر محیط تھا۔ ایک جمہوری دور تھا بلاشبہ اس زمانے میں ابھی رسمی ادارے وجود میں نہیں آئے تھے لیکن اس نظام حیات میں سلطانی جمہوری۔ انسانی مساوات‘ مذہبی رواداری‘ ٹالرنس‘ احترام آدمیت اور حریت فکر و نظر کے بدیہی تقاضے پورے ہورہے تھے۔
اسکے بعد مسلسل دور ملوکیت رہا۔ شاید یہ اسلامی تعلیمات کے اثرات تھے کہ متعدد مسلم سلاطین اور بادشاہ اپنے زمانے کے دیگر بادشاہوں کی نسبت مذہبی رواداری اور اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کیلئے مشہور ہوئے۔ مشہور مورخ پروفیسر ٹوئن بی نے یونہی تو نہیں لکھ دیا تھا کہ ’’انسانی مساوات کا دعویٰ تو بہت سی تہذیبوں اور مذہبوں نے کیا لیکن دنیا کی تاریخ میں اسلام وہ واحد ثقافت ہے جس نے اس پرعمل پیرا ہوکر دکھایا ہے مگر مسلسل دور ملوکیت نے تقلید جامد کو رواج دیا اور یہ دور مسلمانوں کے ہمہ جہت زوال کا دور ثابت ہوا۔ اس دور میں جو شریعت پروان چڑھی اس میں شہری کہاں ہے اور ان کے بنیادی حقوق کہاں؟ خدا خدا کرکے انحطاط و غلامی کی سیاہ رات ختم ہوکر صبح آزادی میں تبدیل ہوئی ہے۔ فرمانے لگے۔ اب صرف انہی احکام کو شرعی قرار دینا جو کسی مخصوص دور میں اس زمانے کے مخصوص حالات میں ترتیب پائے۔ اجتہاد کے دروازے مستقل مقفل کرنے کے مترادف ہے۔ کہنے لگے فرض کریں۔ ہمارا اولین جمہوری دور ہی آج تک جاری و ساری رہتا تو کیا اس میں ارتقاء کا عمل نہیں ہونا تھا؟ یقینا ہونا تھا اگر یہ درست ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جو دنیا کی مثالی جمہوریت آپ برطانیہ کلاں میں دیکھتے ہیں ہماری جمہوریت کی شکل و صورت (بادنیٰ تصرف) اس کے مماثل نہ ہوتی۔
جناب حمید نظامی نے اپنے خطاب کے آخر میں علامہ اقبال کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں انکے مشہور خطبہ صدارت (جس میں مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا نظریہ پیش کیا) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علامہ نے اس خطبہ میں یہ صراحت فرما دی تھی کہ نئے وطن میں نظام جمہوری ہوگا جس میں تھیوکریسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور علامہ نے انفرادی کی بجائے منتخب پارلیمان کے ذریعے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا۔
(نظامی صاحب کا خطاب ختم ہوا۔ پرنسپل صاحب کی اجازت کے باوجود کسی طالب علم کو کوئی سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی)
جن دوستوں کی سوئی آج بھی فقہی موشگافیوں پر مبنی غیرمدون شریعت پر اڑی ہوئی ہے ان سے گزارش ہے کہ وہ شریعت بادشاہوں اور امرا طبقے کی ضرورت تھی۔ وہاں شہری نہیں ہوتے تھے اور رعایا کے حقوق کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس دور کے بیسیوں دلچسپ فیصلے پیش کرکے اپنے موقف کی وضاحت کرسکتا ہوں۔
جہاں تک مولانا صوفی محمد کا تعلق ہے وہ اپنے موقف میں سچے ہیں وہ بلاشبہ تین سال کے بچے کو بارہ سال بعد بھی ہو بہو اسی شکل و صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ وہ شریعت میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے پیوند اور روشن خیالی کی ملاوٹ کیخلاف ہیں اگر مولانا صوفی محمد فرماتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران میں بھی صحیح شریعت نافذ نہیں ہے تو انکے نقطہ نظر کے مطابق وہ سچ ہی کہتے ہیں۔
نوٹ: میں ان دنوں کالاباغ کے حوالے سے ایک کتاب کی تصنیف و تالیف میں مصروف ہوں لہٰذا چند ہفتے غیرحاضری کی معذرت قبول کریں۔ مجھے یاد آرہا ہے ایک شاعر کی بیگم ہسپتال میں تھیں ڈاکٹر نے افسردہ لہجے میں شاعر کو فون پر اطلاع دی کہ افسوس ہے کہ آپ کی بیگم صرف دو دن کی مہمان ہیں فون بند ہوا تو شاعر زیرلب بڑبڑایا۔ جہاں اس کم بخت کو 50 سال برداشت کیا ہے چلو دو دن اور سہی ۔ آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں آپ کی غیرحاضری کو سالوں برداشت کیا چند ہفتے اور سہی۔