کیا کچھ … ہونے کو ہے

امریکہ کو ہمارے جوہری اثاثوں کی بہت فکر ہے۔ اتنی فکر ہے کہ وہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کو تیار نظر آتے ہیں بلکہ امریکی افواج ہمارے سرحدی علاقوں میں کارروائی کیلئے تیار کھڑی ہے۔ ان کی پوری کوشش اور منصوبہ بندی ہے کہ طالبان کو ختم کرنے کیلئے امریکی فوج پاکستانی افواج کے ساتھ مل کر مؤثر کارروائی کر سکتی ہے۔ مگر اس کیلئے صدر زرداری کی طرف سے اظہار الفت کی متلاشی ہے جبکہ پاکستانی افواج کی بروقت کارروائی نے ان کی منصوبہ بندی اور خواہش کو وقتی طور پر ٹال دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی صدر زرداری پر اظہار اعتماد کرکے دوبارہ کیسی تیاری کرے گا۔
جمہوری طرز حکومت میں اسمبلی اور کابینہ کی اہمیت ہوتی ہے مگر ہمارے جمہوری اصول سابقہ صدر جنرل مشرف بالکل بدل کر چلے گئے ہیں اس وقت بھی اقتدار کا منبع اور گھنٹہ گھر صدر کی ذات ہے۔ اسی لئے صدر زرداری بار بار امریکہ کی یاترا کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی اب پاکستانی سیاست کے جو دوسرے اہم کھلاڑی ہیں ان پر توجہ دے رہا ہے۔ ایم کیو ایم عرصہ دراز سے پاکستانی سرکار کی حصہ دار ہے۔ پھر وہ مکمل طور پر امریکی پالیسی سے متفق ہے اسی طرح کا معاملہ کبھی عرصہ تک اے این پی کی طرف سے رہا۔ صرف پنجاب میں میاں نوازشریف نے امریکی اقدامات پر اظہار تشویش ضرور کیا جب ان کے خصوصی لوگوں نے نوازشریف سے رابطہ شروع کیا تو اب میاں نوازشریف کا تنقیدی ردعمل بدل رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے بھرپور دباؤ ہے کہ مسلم لیگ (ن) زرداری صاحب کی سرکار میں حصہ دار بن کر امریکہ کیلئے آسانی پیدا کرے جبکہ صوبے دار پنجاب وزیراعظم پاکستان سے ان معاملات پر مسلسل مشاورت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اگلے انتخابات نظر آ رہے ہیں وہ اس حکومت کا حصہ بن کر اپنی حیثیت مشکوک نہیں کرنا چاہئے پھر ان کی ملک کے اندر مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے مگر وہ بے بس نظر آ رہی ہے۔ اس کے اندر اختلافات نمایاں
نظر آ رہے ہیں پارٹی کو چند مخصوص لوگ چلاتے نظر آ رہے ہیں جبکہ چند سرکاری کارندوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو وہ کچھ کرنا پڑا جس کے لئے وہ تیار نہ تھی عدلیہ کے معاملہ پر صدر زرداری کی وعدہ خلافی نے ان کو نواز لیگ سے دور کر دیا مگر ان کے مشیر ابھی بھی ان کو ورغلاتے رہتے ہیں۔ صدر زرداری کا سرکاری امریکی دورہ تو تین دن کا تھا لیکن آج پانچویں دن بھی وہ امریکہ میں ہیں۔ کوئی بھی سرکاری ذریعہ صدر کی مصروفیت کے بارے میں بتانے سے قاصر ہے۔ اندر کی خبر صرف ہمارے سفیر محترم کو یا صدارتی ترجمان جو ہمارے سفیر مقیم امریکہ جناب حقانی کی زوجہ محترمہ ہیں ان کو معلوم ہے امریکی دوسری طرف طالبان کی درپردہ مدد کرتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ طالبان کے پاس جدید ہتھیار نیٹو افواج کی طرف سے آتے نظر آ رہے ہیں ورنہ طالبان کے پاس ایسے ہتھیار کیسے آ سکتے تھے۔ افواج پاکستان کو اس معاملہ پر بہت تشویش ہے۔ انہوں نے صدر زرداری کو آگاہ بھی کیا ہے اب تو ہماری فوج باقاعدہ طالبان سے برسرپیکار کر دی گئی ہے۔ کیا صدر زرداری امریکی ہم منصبوں سے مغلوب ہوئے بغیر بات بھی یا امداد اور خیرات کے نام پر حسب سابق خاموش رہے۔ کیا یہ سب کچھ پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے یہ ہی آج کا بھی سوال ہے۔

ای پیپر دی نیشن