قدرت نے مجھے بھی دو یار ”عطا“ فرمائے ہیں۔ دوست میں اس لئے نہیں کہتا کہ میں دوستوں کے ساتھ شوہروں والا سلوک نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میں تذبذت کا شکار ہو جاتا ہوں بلکہ جب سے میں نے قرآن پاک سے یہ پڑھا اور سیکھا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں ہی تمہارا دوست ہوں اور وقت نزاع تم دیکھوگے کہ میں تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں گا۔ چونکہ میں اسلام کا شیدائی اور روشن خیالوں کے نزدیک سودائی ہوں‘ مگر میں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر اللہ کو اپنا دوست بنا لیا ہے اور یہی حاصل زندگانی ہے کہ دنیا فانی ہے اور پلک جھپکتے صدیوں کا سفر طے ہو جاتا ہے اور دوست تو دائمی ہونا چاہیے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کام آئے اور دوستی نبھائے۔ بہرکیف اللہ نے مجھے دو یار عطا فرمائے ہیں جن سے اب کسی کی شادی بیاہ پر ملاقات ہو جاتی ہے۔ ان میں ایک کا نام عطاالحق قاسمی ہے اور دوسرے کا نام عطااللہ عیسیٰ خیلوی ہے۔ دونوں کے ناموں کا مطلب ایک ہے اور جہاں تک کاموں کا تعلق ہے وہ بھی دونوں کے ایک ہی ہیں۔ دونوں اپنے یار کی خاطر‘ دنیا کو خاطر میں لائے بغیر اونچی سُروں میں گاتے ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک افضل عاجز کا لکھا گاتا ہے جبکہ دوسرا اپنا کلام نثر میں گاتا ہے۔ دونوں کی یادیں بچپن کی یاری سے وابستہ ہیں جو دونوں کے دلوں میں بُری طرح نقش ہو چکی ہیں اور معاشرے سے انتقام لینے کی خاطر کئی شادیاں کرنے کے باوجود درد بھری اور رُونی صورت اس عمر میں مزید عبرت انگیزی کا رنگ روپ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ لیلیٰ مجنوں‘ سَسی پنوں‘ ہیر رانجھا وغیرہ تو قدامت پسندی کی باتیں ہیں‘ موجودہ دور کے مجنوں میں سے ایک کے یار کو تو دنیا جانتی ہے جبکہ دوسرے نے ایک پروگرام جس کی میزبانی میں کر رہا تھا‘ میرے کریدنے اور منت ترلے کرنے کے باوجود میری طرح اپنے یار کا راز فاش نہیں کیا‘ میرے زیادہ اصرار پر ایسی رُونی صورت بنائی کہ میرے ساتھ ساتھ ناظرین اور سامعین کے آنسو اور آہوں کو ہچکیوں میں بدلتے دیکھ کر میں نے موضوع ہی بدل دیا کہ عقلمند کہتے ہیں کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کہیں پٹھان غلط مطلب نہ لے جائے کہ میری یار کا نام کیوں اتنی دلچسپی سے پوچھ رہا ہے حالانکہ میں تو صرف یار کی یاری کو دیکھنا چاہتا تھا۔ بقول شخصے‘ شادی کے بیس سال بعد تو دور کی بات ہے اس عشق و محبت کا فائدہ جس میں ”حدود“ کا قانون ہی نہ لاگو ہوتا ہو۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں دوسرا عطا زیادہ عقلمند نکلا‘ یہ بات میں اس کی دولت مندی کی وجہ سے نہیں بلکہ میدان صحافت میں ڈاکٹر شیرافگن نیازی بن جانے کی وجہ سے کہہ رہا ہوں حالانکہ نیازی تو دوسرا عطا ہے‘ مگر افسوس یہ ہے کہ عطاالحق قاسمی چونکہ اب وہ عوامی نہیں رہا بلکہ زبان خلق کی آواز سُننے والی جگہوں سے کوسوں دور چلا گیا ہے‘ لہٰذا اب اپنے نام سے نہیں یار کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے‘ اس کی ایک مجبوری ہے کہ ایک تو اس کا مسلک دیوبندی ہے دوسرا اب بیعت کرنے کا رواج ہی نہیں رہا ورنہ شاید وہ یہ بدعت بھی کر گزرتا۔ کسی زمانے میں وہ بانو قدسیہ آپا اور اشفاق احمد سے بہت متاثر تھا‘ ان میں میاں بیوی اور قدرت اللہ شہاب کے درمیان رات گئے تک دنیاوی محبوب کی تعریف کے بارے میں بحث چل رہی تھی کہ محبوب کسے کہتے ہیں۔ آخرکار یہ تینوں بابا جی دھرم پورہ والے کے پاس گئے ان سے پوچھا‘ تو انہوں نے فرمایا کہ محبوب اس کو کہتے ہیں جس کی کوئی چیز بُری نہ لگے‘ بلکہ بُری بھی اچھی لگے۔ بس وہ دن اور آج کا دن اس نے قسم کھا لی کہ بابا جی کا قول پورا کر کے دکھاوں گا اور یار کی یاری میں اپنی کئی دہائیوں کی بنی شناخت ہی کھو بیٹھا۔ جہاں تک دونوں کا لائف ٹائم ایچومینٹ ایوارڈ لینے کا تعلق ہے عطااللہ عیسیٰ خیلوی برطانیہ سے اعلانیہ طور پر اور عطاالحق قاسمی حکومت پاکستان سے ”اعزازی“ طور پر بخوشی اور رضا و رغبت وصول کر چکے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک نے یار کی خاطر گانا ابھی تک بند نہیں کیا اور دوسرے نے ناچنا بھی شروع کر دیا ہے حالانکہ دیوبندی تو صوفیانہ رقص کے بھی خلاف ہیں مگر اس معاملے میں دونوں بابا بلھے شاہؒ کے معتقد و معترف ہیں چونکہ میں دونوں کا یار ہوں اور یار کا کام ہے مخلصانہ مشورہ دینا‘ میرا اختلاف یہ ہے کہ خود ناچنے کی بجائے دوسروں کو نچوانا چاہیے۔ مگر مجھ سے تو دونوں بہتر ہیں کہ اس عمر میں بھی دونوں کو اپنا یار یاد ہے۔ بچپن کا یار تو ابھی تک میرے سر پر بھی سوار ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ نہ تو میں عطاالحق قاسمی بن سکا نہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی مگر اپنے ان یاروں کی طرح اپنے یاروں کو میں بھی نہیں بھولتا ....
وہ دل کہاں سے لاوں تیری یاد جو بھلا دے