حکومت یونان کے معاشی بحران سے سبق سیکھئے

May 12, 2010

محمد مصدق
یورپی یونین گزشتہ تین ماہ سے یونان کے معاشی بحران کی وجہ سے پریشان تھی‘ لیکن اب تو پانی سر سے گزرنے والا ہو گیا تھا‘ یعنی یونان دیوالیہ ہونے کی سرخ لکیر سے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔ چنانچہ دو روز پہلے بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے 16ممالک کے فنانس منسٹروں کی کانفرنس ہوئی اور تین گھنٹے تک یونان کے تمام مالی امور کا جائزہ لینے کے بعد 110 بلین یورو کا ایمرجنسی لون پیکیج منظور کر لیا گیا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے بھی اس میں خاص طور پر شرکت کی اور وہ بھی یونان کو قرضہ فراہم کرنے والے کنوریشم میں شامل ہے۔ اس قرضہ پر پانچ فیصد شرح سے سود وصولی کیاجائے گا۔ IMF کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈومینک ڈائریکٹر ڈومینک سٹراس کاہن نے کہا ”دوسرے ممالک کو یونان کے مالی بحران سے الگ رکھنے کیلئے اس پیکیج کا فیصلہ کیا گیا۔ اس قرضہ کے حصول میں سب سے فعال کردار جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکر نے ادا کیا اور یقینی بات ہے کہ تین سالوں دیئے جانے والے 110 بلین یورو کے قرضے میں سے 80 بلین یورو یورپی یونین ادا کرے گی اور پہلے سال 30 بلین یورو ادا کئے جائیں گے‘ جس میں سے بڑا حصہ جرمنی ادا کرے گا‘ لیکن انجیلا مارکر کے لئے یہ کام آسان نہیں ہے۔ پارلیمنٹ سے منظوری بھی حاصل کرنی پڑے گی۔ دوسری طرف IMF نے یونان پر سخت شرائط بھی لاگو کر دی ہیں۔ خصوصاً بجٹ کا خسارہ 13.6 فیصد سے کم کرنا ہو گا۔ بلیک سیکٹر میں کٹوتیاں کرنی ہوں گی۔ (کی گورنر کو اڑھائی کروڑ کی مرسیڈیز منگوانے کی اجازت نہیں ہو گی) تنخواہوں اور پنشن میں کمی کی تجویز کے ساتھ انہیں تین سال کیلئے منجمد بھی کر دیا جائے گا۔ VAT یعنی ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔ خصوصاً ایندھن‘ الکوحل اور تمباکو وغیرہ پر یونان کے وزیر اعظم پامیزد نے اس ایمرجنسی قرضہ کو فقید المثال قرار دیا ہے اور کینٹ کی ایمرجنسی میٹنگ میںجسے سرکاری ٹیلی ویژن نے Live ٹیلی کاسٹ کیا۔ کچھ دوسرے اقتصادی قدم اٹھانے کی بات بھی کی ہے اور یورپی یونین کا شکریہ ادا کیا ہے کہ یونان کنگالی اور دیوالیہ ہونے سے بال بال بچ گیا۔
حکومت پاکستان اور پنجاب کو یونان کے معاشی بحران سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عرفان شیخ نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں کو بند کرنے کے بجائے کاروباری مراکز بے شک تین گھنٹے دیر سے کھولے جائیں‘ لیکن لین دین کے مصروف ترین اوقات رات آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک ہیں۔ اس لئے حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور فوری طور پر گیارہ بجے تک کاروباری سرگرمیاں بحال کرے‘ کیونکہ اس قدم سے پاکستان اور پنجاب معاشی طور پر مستحکم ہو گا ورنہ دوسری حالت میں کارخانے بند ہو کر بے روزگاری میں اضافہ ہو جائے گا۔ کاروباری تنظیمیں پہلے سے نصف بجلی استعمال کریں گی تاکہ بجلی بھی زیادہ خرچ نہ ہو۔
a
مزیدخبریں