ایم ریاض پشاور
صوبہ خیبرپختونخوااوراس سے ملحقہ قبائلی علاقے روایتی طورپرقدامت پسندتصورکئے جاتے ہیںجہاںزندگی کے دیگرشعبوںکی طرح سیاست اوربالخصوص انتخابی سیاست میںخواتین کی حوصلہ افزائی کے رجحانات بہت کم دیکھنے میںآتے ہیںتاہم2013کے عام انتخابات اس حوالہ سے خوش آئندہیںکہ صوبہ کے ایک کروڑ21لاکھ77ہزار8سو94رجسٹرڈووٹروںمیںخواتین ووٹروںکی تعداد51لاکھ67ہزار6سو24جبکہ فاٹاکے کل11لاکھ46ہزار5سو24رجسٹرڈووٹروںمیںخواتین ووٹروںکی تعداد5لاکھ96ہزار9سو93ہے جبکہ مجموکی طورپر38خواتین امیدواربھی جنرل نشستوںکیلئے انتخابی میدان میںتھیںان میںصوبہ سے قومی اسمبلی کی35عام نشستوںکیلئے15خواتین جبکہ صوبائی اسمبلی کی99عام نشستوںکیلئے22خواتین مردوںکامقابلہ کررہی تھیںاورپہلی مرتبہ ایک خاتون امیدواربادام زری نے قبائلی علاقہ جات سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے44سے عام انتخابات میںحصہ لیااگرچہ ضلع لوئردیرمیںسیاسی جماعتوںکے امیدواروںنے انتخابی عمل میںخواتین کی عدم شمولیت کافیصلہ کیالیکن اس کے باوجودصوبہ خیبرپختونخوامیںزنانہ پولنگ سٹیشنوںپرخواتین ووٹروںکی بڑی تعدادحق رائے دہی استعمال کرنے میںپرجوش نظرآتی رہی شہری اوردیہی علاقوںکی تقسیم سے بالاتران پولنگ سٹیشنوںپرخواتین کی موجودگی انتخابات کے قومی عمل میںان کی بھرپورشرکت کامنہ بولتاثبوت تھااورحوصلہ افزاءامریہ بھی تھاکہ متعددمقامات پرمردانہ پولنگ سٹیشنوںپرامیدواروںکے حامیوںاورسیاسی جماعتوںکے کارکنوںکے مابین ہلڑبازی اوربدنظمی کے واقعات کے برعکس زنانہ پولنگ سٹیشنوںپرصورتحال مجموعی طورپرپرامن اورخوشگواررہی جس کی وجہ سے امیدپیداہوچلی ہے کہ آنے والے عام انتخابات میںانتخابی میدان میںخواتین امیدواروںکی زیادہ تعدادحصہ لے گی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخواجہاںروایتی طورپرخواتین ووٹروںکی پولنگ کاٹرن آﺅٹ کم رہتاہے میںبھی خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔
خیبرپختونخوااورفاٹا میں خواتین کی پولنگ
خیبرپختونخوااورفاٹا میں خواتین کی پولنگ
May 12, 2013